ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

منگل، 31 دسمبر، 2013

ریگِ ہستی کا استعارہ بن ۔۔ نصیر احمد ناصر


ریگِ ہستی کا استعارہ بن 
اے سمندر! کبھی کنارہ بن
"یومِ وارفتگی" منا اک دن 
رقص کرتے ہوئے شرارہ بن
اپنی مرضی کی شکل دے خود کو
خود کو سارا مٹا، دوبارہ بن
سارے سازوں کو اک طرف رکھ دے 
بس محبت کا ’’ایک تارا‘‘ بن 
پھول بن کر دکھا زمانے کو 
سنگِ مر مر نہ سنگِ خارا بن
ایک دھاگے سے باندھ لے خود کو 
ہلکا پھلکا سا ہو، غبارا بن
بادلوں سے اتر، زمیں پر آ
آبِ استادہ! تیز دھارا بن
میری آنکھوں میں آ محبت سے 
میرا دیکھا ہوا نظارہ بن
مجھ میں تعمیر کر مکاں اپنا
در، دریچہ، کگر، اسارا بن
اتنی خاموشیوں سے بہتر ہے 
کوئی معنی بھرا اشارہ بن
صبح تک خوب جگمگا ناصرؔ
رات کا آخری ستارہ بن 


پیر، 30 دسمبر، 2013

کوئی منصوبہ ساز تو محب وطن ہوتا

میں نے اُسے انٹر نیٹ پر پاکستان کی ان گنت تصاویر دکھائیں۔ اسے ہر عہدِ 
اقتدار میں ہونے والی ترقی کے نقشے دکھائے۔ اعداد و شمار بتائے مگر اس کم بخت نے میری کسی بھی دلیل کو نہ مانا۔ وہ اپنے موقف پر قائم تھا کہ پاکستان کو ابھی تک کوئی بھی مخلص حکمران میسر نہیں آیا۔ میں نے لیاقت علی خان سے نواز شریف تک تمام وزرائے اعظم ، جملہ صدورِ مملکت اور ان کے کارہائے نمایاں گنائے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ میں نے اکتا کر کہا ، ’’میاں! کیا تمہارے پاس بھی کوئی دلیل ہے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کیلئے؟‘‘
اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھری اور مجھے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ پانچ دس منٹ بعد ہم ایک اجڑے ہوئے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ اس نے سالخوردہ دروازے کی طرف اشارہ کر کے کہا، ’’اس گھر کو غور سے دیکھو۔ تیس سال پہلے بنا تھا۔ تم یہیں کے رہنے والے ہو۔ جانتے ہو کہ اس گھر میں گزشتہ تیس سالوں میں کتنے خاندان مقیم ہوئے؟‘‘

ہفتہ، 28 دسمبر، 2013

ریاض میں محقق اور مصنف نسیم احمد کی کتاب’’المسجد الحرام، بیت اللہ کعبہ شریف‘‘ کی تقریبِ رونمائی

رپورٹ: وقارنسیم وامقؔ
یومِ قائد اعظم کے پرمسرت موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) ریاض کے زیرِ اہتمام معروف آرکیٹیکٹ، محقق اور مصنف نسیم احمد کی کتاب’’المسجد الحرام، بیت اللہ کعبہ شریف‘‘ جسے حال ہی میں الفیصل پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے کی تقریبِ رونمائی ریاض کے مقامی ریستوران میں بدستِ اشفاق بدایونی ، حافظ عبدالوحید ، جاوید اختر جاویدؔ اور ڈاکٹر سعیداحمد وینس عمل میں لائی گی ۔

حلقہء دانشوراں کے روحِ رواں اشفاق بدایونی نے کتاب کی تقریبِ 

بدھ، 18 دسمبر، 2013

میرے خواب جل رہے ہیں دلِ ناتواں کے اندر۔۔۔۔صبیحہ صبا


رضا چراغِ محبت کہیں نہ بجھ جائے ۔۔۔ حسن رضا


حلقہ اربابِ ذوق میں نظریہ وحدت الوجود کی فکری اساس پر گفتگو

حلقہ ارباب ذوق لاہور کا خصوصی اجلاس پاک ٹی ہاؤس میں منعقد ہوا۔ سیکرٹری حلقہ ڈاکٹر غافر شہزاد نے گذشتہ اجلاس کی کاروائی توثیق کیلئے پیش کی۔خصوصی اجلاس میں بریگیڈیر (ر)حامد سعید اختر نے  ”نظریہ وحدت الوجود کی فکری اساس“ کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک وہبی یا لدونی علم ہے جو وحی کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے جب کہ دوسرا اکتسابی علم ہے۔

اتوار، 15 دسمبر، 2013

رضا کبھی تو کوئی ایسا ہمسفر دیکھوں ۔۔۔ حسن رضا


مرے خواب جل رہے ہیں دلِ ناتواں کے اندر ۔۔صبیحہ صبا


سنو میں جانتی ہوں یہ دسمبر ہے ۔۔ سیما غزل


غالب اور گلزار کی جمالیاتی روایات کی توسیع۔واصف سجاد

واصف سجاد،دبستانِ ساہیوال کا وہ شاعر ہے جو تعلیم تو انگریزی زبان میں دیتا ہے مگر شعر اردو میں کہتاہے اوربے ساختہ پن میں کہتا ہے۔
مرا وجود چمکتا ہے اس میں حیرت کیا
یہ چند روز رہا ہے ترے  خیال کے ساتھ
غالب کے شعر سے ماخذِ، سخن کیا کہہ نہیں سکتے،، کے نام سے اپنے پہلے مجموعہ، کلام کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی کے خیال
 میں واصف سجاد کی شاعری کسی نظر نہ آنے والے محبوب کے ساتھ ہم سخنی کا  حاصل ہے اور ساتھ کے ساتھ 

ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

علی اصغر عباس کی دو غزلیں

پہلی غزل
بے مزا زیست کے چکر سے نکل ہی جائیں
بے سکونی ہے بہت،گھر سے نکل ہی جائیں
اب تو شوریدہ سری حد سے بڑھی جاتی ہے
کار_ افسوں ہی کریں،سر سے نکل ہی جائیں
زیست کی شام کنارے سے اتر جاتے ہیں
اس سے پہلے کہ کہیں لوگ،لو مر جاتے ہیں
اتنا دم خم ہی نہیں دل میں رہا دکھ سہہ لے
قہقہہ زور سے لگتا ہے تو ڈر جاتے ہیں
عیب جُوئی کا مری ان کو ضرر نہ پہنچے
جو گماں دوست کریں،ویسا ہی کر جاتے ہیں
رہگذر،ساتھ اٹھائے ہوئے چلتے جائیں
اپنا جادہ ہے میاں ،اپنی ڈگر جاتے ہیں
چیستاں ،ہم ہیں،تو کیا عُقدہ کُشائی ہوگی

منگل، 10 دسمبر، 2013

ساھیوال میں علی رضا کے نعتیہ مجموعے ثنائے سرور کی تقریبِ رونمائی

معروف شاعر ، ادیب علی رضا کے نعتیہ 
شعری مجموعہ ۔ ثنائے سرور ۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعارفی تقریب اور نعتیہ مشاعرہ ، بمقام ضلع کونسل ہال ساہیوال ,سخن دوست ویلفیئر فاؤنڈیشن ساہیوال کے زیرِ اہتمام   منعقد ہوئی۔

پیر، 9 دسمبر، 2013

حلقہ ارباب ذوق لاہور میں سونیا خاں کے نظمیہ مجموعے ”آدھی صدی میں کتنی صدیاں“ کی تقر یبِ پذیرائی

حلقہ ارباب ذوق لاہور کا خصوصی اجلاس سونیا خا ن کے نظمیہ شعری مجموعہ”آدھی صدی میں کتنی صدیاں“ کی پزیرائی کے لئے اصغر ندیم سیدکی صدارت میں پاک ٹی ہاؤس میں منعقد ہوا۔ سیکرٹری حلقہ ڈاکٹر غافر شہزاد نے گذشتہ اجلاس کی کاروائی توثیق کیلئے پیش کی۔ ”آدھی صدی میں کتنی صدیاں“ کے حوالے سے گفتگو کرنے والوں میں ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ، احمد حماد، ڈاکٹر امجد طفیل، شفیق احمد خان، ڈاکٹر ضیاالحسن، زاہد مسعود، اصغر ندیم سید 

سعود عثمانی کا شاعرانہ عشائیہ


اوسلو ، ناروے سے آئی ہوئی مہمان شاعرہ اور معروف اداکارہ محترمہ سونیا میر کے لیے سعود عثمانی نے شیزان ریسٹورنٹ فورٹریس سٹیڈیم لاہور میں ایک خیر مقدمی عشائیے کا اہتمام کیا جس میں دوستوں کی شرکت نے اسے پر لطف اور یادگار بنادیا ۔ سونیا میر کی نظموں کی کتاب " آدھی صدی میں کتنی صدیاں " حال ہی میں شائع ہوئی ہے ۔

جمعہ، 6 دسمبر، 2013

واصف سجاد کا اولین مجموعہ،،سخن کیا کہہ نہیں سکتے شائع ہو گیا ہے

ساھیوال میں مقیم معروف  شاعر واصف سجاد کا اولین مجموعہ کلام،،سخن کیا کہہ نہیں سکتے شائع ہو گیا ہے۔واصف سجاد ساھیوال میں مقیم شعرا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

غزل ۔ انور زاہدی


میں نے دیوار میں اک در جو بنا رکھا ہے
راستہ تیرے لئے ہی وہ کُھلا رکھا ہے
آمد صبح ہے نکھرتی ہے فضائے گُلشن
دیکھ تو جان صبا گھر کو سجا رکھا ہے
آبلہ پائ نے جو حال سے بے حال کیا
پوچھا کس نے تھا بھلا حال یہ کیا رکھا ہے
تھی مقدر میں مرے دشت نوردی جاناں
تن پہ پیراہن خوں جب سے سجا رکھا ہے
خاک بالوں اٹی خشک ہوئ ہیں آنکھیں
تھا جو گُلشن وہ بدن صحرا بنا رکھا ہے
وقت کے ساتھ گزرتے ہوئے موسم بیتے
ایک موسم ہے جسے دل میں بسا رکھا ہے

جمعرات، 5 دسمبر، 2013

مختار جاوید کی غزلوں میں تازہ کاری ہے،حلقہ اربابِ ذوق کے ہفتہ وار اجلاس میں رائے

حلقہ ارباب ذوق لاہور کا ہفتہ واراجلاس ڈاکٹر خواجہ محمدزکریا کی صدارت میں پاک ٹی ہاؤس میں منعقد ہوا۔ سیکرٹری حلقہ ڈاکٹر غافر شہزاد نے گذشتہ اجلاس کی کاروائی توثیق کیلئے پیش کی۔اجلاس کے پہلے حصے میں مختار جاوید نے اپنی غزلیں تنقید جبکہ دوسرے حصے میں ڈاکٹر جواز جعفری نے مضمون ”کلاسیکی موسیقی میں گھرانے کا تصور“  تنقید کے لئے پیش کیا۔ 

بدھ، 4 دسمبر، 2013

غزل ۔۔ شوکت علی ناز قطر

غموں سے پرُانی شناسائیاں ہیں 
مری ہمنوا میری رسوائیاں ہیں 
پھر آئیں بدن ٹوٹنے کی صدائیں 
اُداسی کے موسم کی انگڑائیاں ہیں 
میں خاموشیوں سے ہوں محوِ تکلم
مری ہم سخن میری تنہائیاں ہیں 
ہوا رونما کون نورِ مجسم
تصور میں یہ کس کی پرچھائیاں ہیں 
یہاں ڈوب کر کون اُبھرا ہے ابتک
یہ عشق و محبت کی گہرائیاں ہیں 
اُٹھالے کوئی آج ہاتھوں میں پتھر
سرِ آب کتنی جمی کائیاں ہیں  
تیرے چہرے کی نازؔ ہیں یہ خراشیں 
یا آئینے کے رُخ پہ ہی چھائیاں ہیں 

غزل ۔ سحر تاب رومانی

اک صدائے ناز سنتا رہتا ہوں 
زندگی کا ساز سنتا رہتا ہوں 
ایک دھن ترتیب پاتی رہتی ہے 
آپکی آواز سنتا رہتا ہوں 
نقطہ_ انجام سے واقف نہیں 
نغمہ_ آغاز سنتا رہتا ہوں 
خامشی کرتی ہے جب مجھ سے کلام 
 اسکے میں الفاظ سنتا رہتا ہوں
سن نہیں سکتا ہوں میں اب اور کچھ 
بس وہی آواز سنتا رہتا ہوں 
اور پر اسرار ھے کتنی حیات ؟
خامشی کے راز سنتا رہتاہوں 
کوئی تو ہو بولنے والا سحر 
اپنی ہی آواز سنتا رہتا ہوں

اعتراف (افسانہ) ۔طلعت زہرہ

سرسبز میدان میں کہیں کہیں درخت موجود تھے ۔ انہی میں سے چند درختوں کی چھاؤں میں ایک دو لوہے کی میزیں اور دس پندرہ کرسیاں رکھی تھیں ۔ کچھ طالبعلم وہاں آن پہنچے تھے اور باقی آتے جا رہے تھے۔ پروفیسر کے آتے ہی سب طالبعلموں کی تیز تیز آوازیں اور شور دھیما پڑ گیا ، وہی موضوعات جن پر وہ باتیں کر رہے تھے ، پروفیسر بھی ان میں شامل ہو گیا لیکن تمام لوگ اُس کی باتیں بہت غور سے سنتے اور کچھ کچھ تو نوٹس بھی لیتے جا رہے تھے ۔ 

Manto was prophet of hope, Ayesha Jalal says in Toronto

By Latafat Ali Siddiqui
TORONTO – There is a perception that most books on India’s partition were not written in a correct perspective of historical facts. In many cases, authors on both sides of Indo-Pakistan border presented the facts according to the needs of their own country.
 Some European writers also presented one-sided or biased views on British Raj and the independence of India and Pakistan.
 Several writers distorted the facts and brough their personal opinions. For example, no Pakistani author ever made mention of Father of the Nation Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah’s historic address to the Constituent Assembly on August 11,1947.
In his speech, Jinnah clearly declared that in Pakistan the state will have nothing to do with matters of the faith and Pakistan was supposed to become a democratic Muslim-majority nation state.
He went on to add: “… you will find that in course of time (in Pakistan) Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims; not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.”

ڈاکٹر نزہت عباسی کی کتاب شائع ہو گئی


دبستانِ غزل کراچی کی صدرپروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی کی تحقیقی و تنقیدی کتاب،،اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لہجہ،، انجمنِ ترقیِ اردو کے زیرِ اہتمام شائع گئی ہے

منگل، 3 دسمبر، 2013

غزل ۔۔۔ناز بٹ


چمن سا دشت تا حدِ نظر کتنا حسیں ہے
تو میرا ھم قدم ھے تو سفر کتنا حسیں ہے
مری جانب لپکتی منزلوں سے پوچھ لینا
کسی کے ساتھ چلنے کا ھُنر کتنا حسیں ہے
وہ میرے سامنے بیٹھا ھوا ھے میرا ھو کر
دعائے نیم شب کا یہ اثر کتنا حسیں ھے
زہےقسمت کہ سایہ دار بھی ہے، با ثمر بھی
مرے سر پر محبت کا شجر کتنا حسیں ہے
عجب خواب آشنا آنکھیں ھوئی ھیں وصل کی شب
کُھلی ہے آنکھ تو رنگ ِ سحر کتنا حسیں ہے
میں ہنستی کھیلتی ہوں جس کے خواب ِ نارسا میں
مرا احساس ِ حسرت ہے مگر کتنا حسیں ہے
نہیں ہے ناز کم جنت سے میرا آشیانہ
محبت سے مزئین میرا گھر کتنا حسیں ہے

ناصر رضوی کے دوسرے شعری مجموعے کی تقریب ِ پزیرائی

 ناصر رضوی کے دوسرے شعری مجموعے،،خواب نگر میں دوسرا قدمِ،، کے حوالے سے تقریب اور شعری نشت نامور مصور اسلم کمال کی صدارت میں  ایک مقامی ہوٹل میں صوفی تبسم اکیڈمی کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی۔ برطانیہ سے آئی ہوئی ڈاکٹر رضیہ اسماعیل مہمانِ خصوصی تھیں۔   نظامت کے فرائض ڈاکٹر فوزیہ تبسم نے
ادا کئے۔

ایک غیر رسمی شعری نشت

ایک غیر رسمی شعری نشست میں جناب پروفیسر حسن عسکری کاظمی ، جناب اعتبار ساجد ، جناب ایم اے راحت ، جناب مختار جاوید ، اور آغا ارشد صاحب سے 
آج دوپہر اعوان ٹاﺅن میں جناب طارق چغتائی  کے ہاں ملاقات ہوئی ۔رسمی گفتگو سے شروع ہونے والی یہ  
   نشست 
ایک غیر رسمی شعری نشست کی صورت اختیار کر گئی
 :چند اشعار دوستوں کی نظر

نظم ۔ نصیر احمد ناصر


تم نہیں دیکھ سکتے 
لیکن میں دیکھ سکتا ہوں 
نیند کا سایہ 
اور دھوپ کی پرچھائیں 
اور قدیم پتھروں 
اور درختوں کی چھالوں سے 
برآمد ہوتی روحیں 
اور سُن سکتا ہوں 
ہوا کی سرگوشیاں 
اور دروازے کُھلنے کی آواز 
اور آ جا سکتا ہوں 
اُن راستوں پر 
جو تمہارے وجود کے اٹلس میں 
کہیں دکھائی نہیں دیتے ! 

غزل ۔ سید انور جاوید ہاشمی


مُیسر یا فراھم جب رہیں ا سبا ب جاتے ہیں
بُلا ئیں بر سر - محفل ا گر ا حبا ب جاتے ہیں
تصو ر میں کہا ں ہو تی ہیں اب اُن سے ملاقاتیں
فقط ملنے؛ ستا ئے جب دلِ بے تاب جاتے ہیں
کسی بھی واقعے پر کیفیت یک ساں نہیں رہتی
کبھی پژ مُر د ہ ہوتے ہیں کہیں شاداب جاتے ہیں
ا خذ مفہوم کرنا قا ر ی و سا مع کا منصب ہے
معا نی سے پر ے بھی یار کُھلتے باب جاتے ہیں
فقط نم ان سے چشم و آستینیں ہی نہیں ہوتیں
یہ کشتِ دل کو بھی کرتے ہوئے سیراب جاتے ہیں

جھلک(شعری مجموعہ) ۔ افضل گوہر

افضل گوہرکا شمار اردو کے اہم شعرا میں ہوتا ہے.جهلک سے پہلے ان کے
 چار شعری مجموعے "اچانک، ہجوم، رمق اور ہم قدم" کے نام سے منصہءشہود پر آ چکے ہیں اور اہل-ادب سے داد پا چکے ہیں..ڈاکٹر وزیر آغا، احمد فراز، ظفر اقبال، افتخار عارف اور محمد اظہارالحق جیسے ممتاز شعرا ان کے فکروفن پر اظہار-خیال کر چکے ہیں .. زیرنظر مجموعہ ان باسٹهہ غزلوں پر مشتمل ہے. اس کا پیش لفظ ارشد سعید نے تحریر کیا ہے جبکہ فلیپ پر اقبال احمد قمر اور امتیاز علی گوہر کی آرا درج ہیں. افضل گوہر نے منفرد ردائف اور خوبصورت ڈکشن سے غزلوں کا جہان-تازہ تخلیق کیا ہے. 

سامعہ ناصر ملک ۔اطہر جعفری

شاعری کا آغاز کب ہوا ؟کس نے کیا ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ کچھ قدیم مخطوطوں سے بس اتنا ہی پتا چلتا ہے کہ انسان نے جب لکھنا شروع کیا تو شاعری بھی لکھی گئی لیکن وہ شاعری جو کی تو گئی مگر لکھی نہ جا سکی۔ اس کے آغاز کی کچھ خبرنہیں۔البتہ قدیم غاروں کی دیواروں پر پائے جانے والے نقوش یہ بتاتے ہیں کہ انسان نے جب جب کچھ کہنا چاہا، اپنے محسوسات کے اظہار کیلئے اس نے کبھی نقوش کا سہارا لیا، کبھی اصنام گری کی اور کبھی کچھ نہ کچھ تحر یر کیا۔کسی نہ کسی پیرائے میں اپنے محسوسات کا اظہار انسان کی جبلت میں ہے۔  

پیر، 2 دسمبر، 2013

نوید ملک کی کامنی

 نوید ملک جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والا ایک
نوجوان شاعر ہے جو کامنی کے عنوان سے اپنے دوسرے نظمیہ شاعری کےمجموعے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ نوید ملک کے پہلے مجموعہ شاعری،اک سفر اندھ امریکہ کے تخیل پرست شاعر،ایڈگر ایلن پو، کی طرح دکھائی دیا تھا۔ کامنی میں،نفس، ذھن اور ادراک وہ زمین ہے جس میں نوید ملک کے فن کے پھول کھلتے ہیں۔