ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعہ، 26 دسمبر، 2014

کُھلے گا اِ سم ِ اعظم سا نس کا رشتہ نہ گر ٹُوٹا ۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

سید انور جاوید ہاشمی

کُھلا پہلا کو ئی ہم پر نہ کو ئی د ُ و سر ا ہم پر
سفر آ غا ز سے ا نجا م تک آ خر کھُلا ہم پر
ہماری عکس ریزی اِ س کی ہی مرھون ِ منّت ہے
ا گر ہنستا ہے تو ہنستا ر ہے یہ آ ئینہ ہم پر
نکلتے گھر سے صُبح دم تو میلوں تک چلا کر تے
گر ا ں گز ر ے ہے ا ب تو اِ ک قد م کا فاصلہ ہم پر
نظر سے پھر کبھی ہم بھوُل ہی پاتے نہ وہ منظر
نظر اِ ک پیا ر کی تُم ڈ ا ل د یتے گر ذ ر ا ہم پر
غز ل ، نظمیں، فسا نے، واقعے ہم نے بہت لکھّے
ر ہا ہے تنگ پھر بھی ز ند گی کا قا فیہ ہم پر
تو کیا ا حسا س کی حد سے کہیں آگے نکل آئے
ا ثر ا ب کیو ں نہیں کر تی د و ا کوئی دُ عا ہم پر
کُھلے گا اِ سم ِ اعظم سا نس کا رشتہ نہ گر ٹُوٹا
خُد ا کا فضل شا مل ہو ر ہے گا د یکھنا ہم پر

پیر، 22 دسمبر، 2014

یہ آنکھ میری خواب میں بھی نم ہے دوستو ۔۔ سبیلہ انعام صدیقی

سبیلہ انعام صدیقی
لگتا نہیں ہے عید میں کچھ دم ہے دوستو
کیا درد فلسطین کا کچھ کم ہے دوستو 
ہے چوٹ ان کے جسم میں تکلیف مجھ کو ہے
یہ آنکھ میری خواب میں بھی نم ہے دوستو
پانی کی طرح بہتا ہے اب مومنوں کا خوں
اک کربلا سا دوسرا یہ غم ہے دوستو
اے کاش معجزہ ہو غزہ کی زمین پر
اس درد کی دوا ہے نہ مرہم ہے دوستو
ملتا نہیں سبیلہ کو ءی حق شناس اب
نیت کے را ستے میں بہت خم ہے دوستو

ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

اے میرے گھر کے چاند ترے سا تھ کیا ہوا -- سبیلہ انعام صدیقی

سبیلہ انعام صدیقی
معصوم کا کفن ہے جو خو ں میں بھرا ہوا
اے میرے گھر کے چاند ترے سا تھ کیا ہوا
کوئی بتادے لال کا میرے تھا کیا قصور
اسکول اس کا جانا ہی کیسے خطا ہوا
آنکھوں سے میرے بہتا ہے بے اختیار خون
دیکھوں گی کیسے چاند کا ٹکڑا کٹا ہوا
بے شک شہید ہے مر ا نو رِ نظر مگر
وہ بن ملے ہی ماں سے ہے جنت گیا ہوا
اے کاش ظا لمو تمھیں ا حساس ہو سکے
ما ؤں کی زند گی میں جو محشر بپا ہوا
طاقت کہاں وہ لفظ میں جو کرب کہہ سکے
غمگین ہو کہ دل مرا نوحہ سرا ہوا
اے ظا لمو سبیلہ کی دل سے ہے بد دعا
دیکھوگے اپنے باغ کو تم بھی جلا ہوا

جمعرات، 18 دسمبر، 2014

نعت ! تو صیف ِ محمد کے علا و ہ کیا ہے ۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

سید انور جاوید ہاشمی
کیوں بتا تے ہو ہمیں اُ سو ہ ء حسنہ کیا ہے
نعت ! تو صیف ِ محمد کے علا و ہ کیا ہے
سیرتِ پا ک سے بڑ ھ کر کوئی اُ سو ہ ہے بھلا
ہم کو اِ س با ب میں پھر ا و ر سمجھنا کیا ہے
نا ز کیو ں کر نہ کر ے قو م ِ عر ب کی عورت
قسمت، ا ے د ا ئی حلیمہ تر ا رُ تبہ کیا ہے
بن گیا غا ر ِ حر ا مکتب ِ اُ و لی ٰ اُ ن کا
و ر نہ کہنے کے لیے غا ر میں ر کھّا کیا ہے
کعبہ ڈ ھا نے کو چلے ا بر ہہ، ہا تھی و ا لے
اُ ن کو معلوم نہ تھا ضِد کا نتیجہ کیا ہے
خُو د خُد ا ا و ر ملک صلِّ علی ٰ کہتے رہیں
ہا شمی ہد یہ تر ا کیا، تر ا د عو ی ٰ کیا ہے

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

خوف زدہ ہیں گھر کی ساری دیواریں ۔۔ اوصاف شیخ

اوصاف شیخ
ٹھہر گیا ہے ایک ہی منظر کمرے میں
میں تیری تصویر ، دسمبر کمرے میں
میں، تیری یادوں کی بارش ، تیز ہوا
تنہا بھیگ رہا ہے بستر کمرے میں
میں دریا کے پار کی سوچ رہا ہوں اور
در آیا ہے ایک سمندر کمرے میں
لے آئی ہے گلیوں میں اک آگ مجھے
چھوڑ آیا ہوں ٹھنڈا بستر کمرے میں
خوف زدہ ہیں گھر کی ساری دیواریں
ڈیرہ ڈالے بیٹھا ہے ڈر کمرے میں
کون خزاں میں پھول کھلانے آیا ہے
کس کی خوشبو ہے یہ بنجر کمرے میں
آنگن میں ہے جاری رقص ہواؤں کا
سہما بیٹھا ایک قلندر کمرے میں
آنگن میں ہے سونے پن کا راج اوصاف
چیخ رہی ہے تنہائی ہر کمرے میں

جمعرات، 20 نومبر، 2014

پرانے مضامین اور استعاروں کو نئی جہت عطا کرنے والے لیاقت علی عاصم سے ایک مکالمہ

وہ ایک طوفانی رات تھی۔ موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔
زمین سے آسمان تک ایک پردہ سا تن گیا۔ لہریں ہوائوں کے رتھ پر سوار ہوئیں، جن کی زد میں آنے والا ایک بحری جہاز منوڑا کے ساحل پر پھنس گیا۔ حادثات کی اس دنیا میں امید کا اکلوتا سہارا ’’سگنل ٹاور‘‘ تھا، جہاں اس رات فقط ایک شخص موجود تھا۔ ایک شاعر!
لیاقت علی عاصم کو وہ رات اچھی طرح یاد ہے۔ وہ ٹاور پر تنہا تھے، اور ایک بھاری ذمے داری اُن پر آن پڑی۔ اُنھوں نے فوراً شپنگ آفس میں واقعے کی اطلاع پہنچائی۔ طوفانی بارش میں امدادی کارروائی کا آغاز ہوا۔ بالآخر صبح تک وہ جہاز نکال لیا گیا۔ جب صورت حال قابو میں آگئی، سمندر شانت ہوا، تب ایک شخص نے ان سے سوال کیا،’’کس کے بیٹے ہو؟‘‘ جواب میں اُنھوں نے اپنے والد، حاجی علی کا نام لیا، جو علاقے کی جانی مانی شخصیت تھے۔ پوچھنے والے نے کاندھا تھپتھپایا۔ ’’حاجی علی کا بیٹا ہی یہ کام کرسکتا تھا!‘‘ اُس پل کیا احساسات تھے، اِس کا اندازہ ایک بیٹا ہی لگا سکتا ہے۔

جمعہ، 14 نومبر، 2014

بند گلی ۔۔ ایم زیڈ کنولؔ ۔لاہور

ایم زیڈ کنول
گرد راہ سفر کی پیمبر تھی جو
خضر رہ جان اس کو میں بڑھتی رہی
روشنی کے سفر پہ میں چلتی رہی
یک بیک میری آنکھوں میں نور آگیا
بن کے صحرا محبت کا طور آگیا
میں جولپکی تجلی کے دیدار کو
طور کو اس اد اپر غرور آگیا
کیسا دیدار تھا کُوئے اغیار کا
بزم ہستی میں ہرسُو سرور آگیا
جذب و مستی میں کھوئی اُلجھتی رہی
روشنی کے کفن میں بھٹکتی رہی
تھک کے بیدم ہوئی
پھر بھی پُر دم رہی
منزلوں کی طلب تھی
یا ذوق سفر

منگل، 11 نومبر، 2014

منافقوں کے شہر میں عداوتوں کے زہر میں .. سبیلہ انعام صدیقی

منافقوں کے شہر میں عداوتوں کے زہر میں
بدلنا ہے فضا کو اب خلوص و امن و مہر میں
نظر کو میری بها گیا وہ ایک سادہ بات سے
وفا کی ہی امنگ ہے یہ دل جلوں کے شہر میں
نہ ہمسفر نہ ہمنوا مگر مرا ہے مہرباں
وہی رفیق و رازداں حکایتوں کے قہر میں
رواں ہے بہتے پانی میں عجب سی قدرتِ خدا
کہ لمحہ لمحہ رونما ہے انقلاب نہر میں
ہے زیست اس مقام پر کہ ڈهونڈتی ہے خا مشی
مرا وجود کهو گیا ہے دل خراش جہر میں
سبیلہ میرے پاس صرف نعمت ِ خلوص ہے
محبتیں ہی بانٹتی ہوں میں نظام ِ دہر میں

منگل، 4 نومبر، 2014

ہوں ہرے بھرے ترے شاخچے‘‘ہوں شجر شجر ترے چہچہے ۔۔ ماجد صدیقی

ماجد صدیقی
تری ہر دھنک ہے مری کماں‘مری خاک اے مرے آسماں
ترے نجم و ماہ مرے نشاں‘مری خاک اے مرے آسماں
مرا قلب ہو کہ قدم مرا‘تری دھڑکنوں سے رواں ہے وہ
مری روح اے مری جانِ جاں‘مری خاک اے مرے آسماں
میں جہاں بھی جاؤں ‘پھروں جہاں‘مرے خون میں ہے کشش تری
مرے مستقر مرے آستاں‘ مری خاک اے مرے آسماں
ہوں ہرے بھرے ترے شاخچے‘‘ہوں شجر شجر ترے چہچہے
ہوں رواں دواں ترے کارواں‘مری خاک اے مرے آسماں
مری اوڑھنی تُو مری ردا‘تری سرفرازی مری بقا
تو مرا بھرم مرا سائباں‘ مری خاک اے مرے آسماں
شب و روز‘شام و صباح ہے‘یہی وردِ ماجِدِ خوش بیاں
ترے بن بھی ہیں مرے گُلستاں‘مری خاک اے مرے آسماں

اتوار، 2 نومبر، 2014

ظُلم کو دشت میں ہوتے ہوئے رسوا دیکھا ۔۔ ذوالفقار نقوی

ذوالفقار نقوی
عبد و معبود میں اِک سر کا جو سودا دیکھا
ظُلم کو دشت میں ہوتے ہوئے رسوا دیکھا
کُفر لرزاں، صف ِ اعدا میں ہے نالہ، شیون
دستِ شبیر پہ اصغر کو جو ہنستا دیکھا
بیچ کر نفس کو لے لی ہو خدا کی مرضی
کوئی سودا کبھی دنیا میں  نہ ایسا دیکھا
آدم و خضر و براہیم و نبی ِ آخر
سب کے سجدوں کا محافظ ترا سجدہ دیکھا
با ادب جھک گئے کرنے کو وہ سجدہ یکسر
کربلا تجھ پہ فرشتوں نے جو کعبہ دیکھا
کر دیے تو نے بچانے کے فراہم اسباب
دین کی ڈوبتی کشتی نے کنارا دیکھا
دبدبہ کفر کا غرقاب ہوا پل بھر میں
نوک ِ نیزہ پہ جو شبیر کو گویا دیکھا
حق نہیں ہوتا کبھی مغلوب جفا کاروں سے
تیرا پیغام تہہ ِ تیغ بھی زندہ دیکھا
ریگ زاروں کو بھی ملتی ہے نوید ِ باراں
ظلمتوں نے ہے ترے در پہ اجالا دیکھا
جب چلا ضیغم ِ داور سوئے میدان ِ قتال
موت کا کفر کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا
نام ِ مولا کبھی آیا جو زباں پر میری
چشم تر میں نے ہر اک اپنا پرایا دیکھا
وائے مظلومی ء بیمار ترا کیا کہنا
تو نے پردیس میں اک حشر سا برپا دیکھا
مسند ِ دین پہ لادین کا قبضہ دیکھا
قتل ِ ناموس ِ پیمبر کا بھی فتویٰ دیکھا
بے ردا زینب و کلثوم کے سر بھی دیکھے
بے کفن سید ِ ابرار کا لاشہ دیکھا
حزن کا بار اٹھایا نہ گیا زینب سے
ایک بچی کا جو جلتا ہوا کرتا دیکھا
چھو کے لایا تھا جسے میں نے ترے روضہ سے
شہر میں بکتے، وہ کھوٹا سا بھی سکہ دیکھا
یہ فقط فیض ِ حسین ابن ِ علی ہے نقوی
ہر شب ِ غم کا جو تُو نے ہے سویرا دیکھا

جمعہ، 31 اکتوبر، 2014

ضامنِ دینِ ہُدیٰ ہے کربلا ۔۔ ارشد شاھین


ضامنِ دینِ ہُدیٰ ہے کربلا
حجّتِ آلِ عبا ہے کربلا
ظلمتوں میں ہے حوالہ نور کا
غمزدوں کا حوصلہ ہے کربلا
داستانِ عظمتِ شبیرؓ ہے
قصّۂ اہلِ صفا ہے کربلا
معرکہ ہے درمیانِ خیر و شر
دل سے دل کا فاصلہ ہے کربلا
ہے شہیدوں کے لہو کی یادگار
خاک و خوں کا سلسلہ ہے کربلا
دیں کی اک پیہم روایت تا ابد
ایک زندہ معجزہ ہے کربلا
ایک عشرے پر نہیں موقوف یہ
مستقل جگ میں بپا ہے کربلا
دردِ اہلِ بیت سے لبریز ہے
دل مرا یکسر ہوا ہے کربلا
معرکے جتنے ہوئے تاریخ میں
با خدا سب سے جدا ہے کربلا
دل دہل جاتا ہے ارشد سوچ کر
ایک ایسا سانحہ ہے کربلا

بدھ، 29 اکتوبر، 2014

صبر و تسلیم و رضا کی انتہا شبیر ہیں ۔۔ ذوالفقار نقوی

ذوالفقار نقوی
کشتی ِ دین ِ خدا کے نا خدا شبیر ہیں
تابع ِ مرضی ِ حق، حق کی رضا شبیر ہیں
شمع ِ حق ، جانِ نبی، شان ِ وِلا شبیر ہیں
اصل میں وجہ ِ بنائے لا الہ شبیر ہیں
وارث ِ دین ِ محمد ، فاتح ِ کرب و بلا
پیکر ِ جود و سخا، لطف و عطا شبیر ہیں
صاف آ جائیں نظر جس میں نقوش ِ زندگی
گلشن ِ ہستی میں وہ اک آئینہ شبیر ہیں
آ رہی ہے عزم ِ ابراہیم کی اب تک صدا
صبر و تسلیم و رضا کی انتہا شبیر ہیں
فکر ِ انسانی کے پر جل جائیں جا کر جس جگہ
عالم ِ عرفان میں وہ ابتدا شبیر ہیں
لغزشیں دم توڑ بیٹھیں آ کے جس کے سامنے
وہ ثبات و عزم اور وہ حوصلہ شبیر ہیں
جو بدل دے آن میں عنوان ہائے زندگی
نقطہ بیں، نقطہ بیاں، وہ زاویہ شبیر ہیں
مشکلیں آتی ہیں در پر با سر ِ تسلیم خم
رہنما، مشکل کشا و لا فتیٰ شبیر ہیں
چھوڑ کر دامان ِ ابن ِ مرتضیٰ جائیں کدھر
قاسم ِ جنت امام ِ دوسرا شبیر ہیں
از محمد، تا محمد، تا بہ محشر تا خدا
جوڑ دے اِن سب سے جو ، وہ سلسلہ شبیر ہیں
روزِ محشر کا بھلا کیوں خوف ہو نقوی تجھے
تیرے رہبر ہیں محمد، رہنما شبیر ہیں
ذوالفقار نقوی

بدھ، 15 اکتوبر، 2014

کوئی غیبی اشارہ ہو رہا ہے ۔۔ عرفان صادق

عرفان صادق
کوئی غیبی اشارہ ہو رہا ہے
بدن تپ کر شرارا ہو رہا ہے
کھڑا ہوں ہجر کے کس آسماں پر
کہ ہر آنسو ستارا ہو رہا ہے
مرے اندر دیئے جلنے لگے ہیں
وہ مجھ پر آشکارا ہو رہا ہے
وہیں پر ناو ڈوبی ہے ہماری
جہاں دریا کنارا ہو رہا ہے

پیر، 13 اکتوبر، 2014

ادبستان کے زیرِ اہتمام صبیحہ صبا کے پانچویں مجموعہِ کلام دل درد آشناکی تقریبِ رونمائی

ممتاز شاعرہ صبیحہ صبا کے پانچویں مجموعہِ کلام،، دل درد آشنا،،کی تقریبِ رونمائی  ادبستان ادبی نیٹ ٹی وی کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی۔تقریب کی صدارت ممتاز شاعر نجیب احمد نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی ممتاز ادیبہ اور شاعرہ فرحت پروین تھیں۔نظامت کے فرائض میزبانِ محفل رضاالحق صدیقی نے سرانجام دئیے۔
فرحت پروین نے کہا کہ صبیحہ صبا کے ہر شعر میں آپ اسے مجسم دیکھ سکتے ہیں،وہ فطری شاعرہ تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی سچی شاعرہ بھی ہیوہ جو اپنی شاعری میں کہتی ہے وہ اس کی سوچ ہے،اس کا کردار ہے،وہ خود ہے۔وہ سچی مالن کی طرح بڑی خاموشی سے گلستانِ ادب سے رنگ رنگ کے بھول جمع کرتی 
 ہے،گلدستے بناتی ہے،وہ اپنے عہد کی با تصویر تاریخ مرتب کر رہی ہے جسے وہ اردو منزل میں مرتب کر رہی ہے۔
ادبستان ٹی وی کے مالک اور مدیراعلیٰ ممتاز صحافی رضاالحق صدیقی نے کہا کہ صبیحہ صبا کی شاعری میں ایسی جاذبیت اور کشش ہے کہ پڑھنے والااپنے من میں ایک کسک محسوس کرتا ہے،وہیں اس دھرتی کی مٹی سے اٹھنے والی سوندھی
سوندھی خوشبو کو محسوس کرتا ہے

صبیحہ صبا نے اپنے اسلوبِ شعر کی تسکیل میں اپنے عہد کے مزاج کو ملحوظ خاطر رکھا۔صبیحہ صبا کی شاوری میں ایک موضوع وطن سے اظہارِ محبت بھی ہے جس کا اظہار وہ شاعرانہ حسن سے کرتی ہیں اور کہیں وہ محبت کے جذبات میں ڈوب جاتی ہیں۔رضاالحق صدیقی نے مزید کہا کہ وہ انقلابی فضا کی سکاس نظر آتی ہیں،یہ وہی فضا ہے جسے فیض احمد فیض  کی شاعری نے نمایاں تبدیل شدہ رحجان دیا۔صبیحہ صبا جب خود سے باہر نکل کر دیکھتی ہیں تو معاشرے کے دکھ،درد اور آلام انہیں بغاوت پر مجبور کر دیتے ہیں اور یہ وہی رحجان ہے جو فیض احمد فیض،احسان دانش اور حبیب ضالب کے ہاں پایا جاتا ہے

عظمی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے صبیحہ صبا کو ایسی شاعرہ قرار دیا جن کی شاعری میں بے انتہا خوبصورت اور عمدہ شعر موجود ہیں جو خوب سے خوب تر کی تلاز میں منزل کی طرف رواں دواں  ہیں۔
ممتاز ادیب اور شاعر پروفیسر سعادت سعید نے اپنے پر مغز مضمون میں صبیحہ صبا کے پانچویں شعری مجموعے کے بارے میں کہا کہ صبیحہ صبا نے شاعرات کی شاعری کو نئی جہت سے آشنا کیا۔انہوں نے شاعری کو داخلی آزادی کے حصول کا وسیلہ بنایا۔ وہ وسیلہِ حس میں کھل کر کائنات،سماج اور انسان کے مقابل اپنی ذات کا پرچم بلند کر سکتی ہیں۔وہ اپنی مرضی سے اپنی دنیا تخلیق کر رہی ہیں۔صبیحہ صبا مواشرے کا جزو ہوتے ہوئے ایک نئے معاشرے کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔
ناصر رضوی نے اپنی گفتکو میں صبیحہ صبا کی شاعری کو سراہااور کہا کہ ان کے اشعار میں موجود شائستگی اور نغمگی موجود ہے جو دلوں پر اثر کرتی ہے۔
صغیر  جعفری نے منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا۔ممتاز شاعر باقی احمد پوری کی موجودگی نے محفل کو رونق بخشی اور اپنا خوبصورت کلام پیش کیا۔ماہنامہ بیاض کے مدیر اور ادیب بعمان منظور نے بطور خاص شرکت کی۔
دوہا قطر کے ممتاز شاعر ممتاز راشد نے صغیر جعفری سے اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کیا۔صیحہ صبا کی شاعری کا سفر دیر سے جاری ہے اور پسنددیدگی کی سند حاصل کر چکا ہے۔
تقریب کے صدر نشیں ممتاز شاعر نجیب احمد نے  صبیحہ صبا کی ادب سے دیرینہ خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری خلفشار پیدا نہیں کرتی بلکہ برمی او آہستگی سے زیرِ لب اظہار کرتی ہیں۔ وہ معاشرے کی سچی تصویر کھینچتی ہیں۔وہ شاعری سے طویل عرصے سے وابستہ ہیں،شائستہ اور مہزب انداز میں جذبوں اور احساسات کو شاوری کے قالب میں ڈھال رہی ہیں۔
صبیحہ صبا کے اس مجموعے پر خالد احمس مرحوم کی رائے بھی درج ہے جو انہوں نے صبیحہ صبا کے مجموعہِ کلام،،تخیل،، سے ماخذ ہے جہاں خالد احمد نے لکھا،،پاکستانی ادب نے کلادکی رجحانات کے سائے میں حقیقت پسندی اور معاشرتی رویوں کی گود مین آنکھ کھولی۔ان دو عظیم روایتوں نے پاکستان کے دامن کو بیش بہا فن پاروں سے بھر دیا ان تراشیدہ ہیروں کی جھلمل میں کسی گہر آب دار کے لئے اپنی جگہ بنانا کنا دشوار ہے؟ اس کا اندازہ گزشتہ چالیس برس
 کے دوران صرف گنتی کے چند ناموں کے نمایاں ہونے سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔پاکستانی غزل کے باب میں گنتی کے چند ناموں میں ہماری صبیحہ صبا کا اسم گرامی بھی شامل ہے۔
 تقریب کے دوسرے دور میں موجود شعراء نے انتہائی عمدہ کلام پیش کیا۔آخر میں میز بان رضاالحق صدیقی نے احباب کا شکریہ ادا کیا۔

اتوار، 5 اکتوبر، 2014

غالب اکیڈمی میں امجد اسلام امجد کے اعزاز میں ادبی نشست

(رپورٹ:حبیب سیفی /احمد علی برقی اعظمی)
مرکز ادب غالب اکیڈمی دہلی میں پڑوسی ملک پاکستان کے 
شہر لاہور سے آئے مہمان ادیب وشاعراور معروف ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی آمد پر اکیڈمی کی طرف سے اعزازیہ کا اہتمام کیاگیا۔ جس کی صدارت غالب اکیڈمی گورننگ کونسل کی رکن ادیبہ وفنکشن نگارڈاکٹر ترنم ریاض اور نظامت عازم کوہلی نے فرمائی۔اس موقع پرڈاکٹر جی آر کنول نے فنی محاسن،ایڈیٹر زبیر رضوی نے کلچرل اور ثقافت،پروفیسرشہپر رسول نے غزل ونظم، اور عازم کوہلی نے اپنی امجد اسلام امجد سے قربتوں اور دیرینہ تعلقات کاذکر کیا۔

امجد اسلام امجد جن کے 15شعری مجموعے اور 45سے زیادہ دیگر اصناف پر کتابیں ہیں ان کے اعزاز میں رکھی گئی نشست میں ادیب وشعرا،صحافیوں کی کثیر تعدادغالب اکیڈمی میں دیکھی گئی۔امجد اسلام امجد نے اپنی زندگی کے سفر پر جامع انداز میں روشنی ڈالی اور عمدہ شاعری سے سامعین کو نوازا۔مہمان ادیب امجد اسلام امجد نے ڈائس سے کہاکہ میرا ہمہ جہت شخصیت کامالک ہونا بڑی بات نہیں کیونکہ غالب نے کہاتھا کہ میں یک فنا ہو مگر ایسا نہیں تھا،غالب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے،اسلئے میں ڈرامہ نگار اسکیرپٹ رائٹر،شاعر وادیب اورجو کچھ بھی ہوں وہ عطا ئے خدا وندی ہے۔یہ تو بہ ہر حال ماننا پڑے گا اورمیں کہتا ہوں کہ میں نے شاعری کو ڈرامہ نگاری پر قربان نہیں کیا،ہاں وارث جیسے ڈرامہ نے مجھے راتوں رات عروج کی بلندیوں پر پہنچادیااور آج بھی میرا نام دونو ں ممالک کی عوام کی زبانو ں پر ہے۔امجد اسلام امجد کا کہناتھا کہ آج تخلیقی حوالوں سے نئی راہیں روشن ہوئی ہیں،سچ تو یہ شاعری اور ڈرامہ نگاری میں کوئی حد فاصل نہیں ہے،کیمرہ کی ایجاد نے نئی ڈیوینشن دی ہے،ہم سب اپنے لئے اگر اپنے مقصد کی چیزین دریافت کرتے ہیں تو حیرانی کی بات نہیں۔رہی بات ڈرامہ نگاری کی تو میں نے 1980سے 2001تک صرف 9ڈرامہ لکھے اور ہر ڈرامہ کے دوران دوسال سے زیادہ کاوقفہ دیا،جو توقعات عوام نے مجھ سے لگائیں ان پر کھرا اترنے کی کوشش کی اور اللہ تعالی ٰکا شکر ہے کہ مجھے آج عزت وشہرت اور دولت غرض یہ کہ سبھی کچھ حاصل ہے،زیادہ کی تمنا میں بھاگ دوڑ کرنا میں نے گوارہ نہیں کیا۔اردو نے مجھے بہت کچھ ہی نہیں سب کچھ دیاہے، میں یہ محسوس کررہاہوں کہ اگر آج اردورسم الخط کی طرف توجہ دی جائے تو مزید اردو زبان فروغ پائے گی، آنے والے 10برسوں میں اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہوجائے گی، کیونکہ اس کی مقبولیت ساری دنیا میں یکساں ہے اور اسے آسانی سے سیکھ بھی لیا جاتاہے۔امجد اسلام امجد نے زور دیتے ہوئے کہاکہ فطری طور پر میں شاعر ہوں اور مجھے خوشی ہوگی اگر مجھے بحیثیت شاعر یاد کیاجائے گا۔مہمان ادیب نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ  ؎ محبت ایسا دریاہے،یہ بارش کم بھی ہوجائے،تو پانی کم نہیں ہوتا۔یاد رہے آئی سی سی آر والوں کی طرف سے بیگم اختر ایوارڈ لینے کے لئے امجد اسلام امجد بھارت آئے ہوئے ہیں،انڈیا ہیی ٹائٹس سینٹر میں یہ تقریب 7 اکتوبر کی شام میں منعقد کی جائے گی۔نشست کے آغاز پر سکریٹری غالب اکیڈمی ڈاکٹر عقیل احمد نے اردو رسم الخط کے فروغ پر زور دینے کی بات کہی اور کہاکہ آج اردو رسم الخط کی بقا کا مسئلہ ہے،لسانی سطح پراردو مقبول ہے۔غالب اکیڈمی کا قیام مرحوم حکیم عبد الحمید نے جس مقصد کے تحت کیاگیا تھا اسے پورا کیاجانا ہی ہمارا مقصد ہے۔متین امروہوی نے منظوم استقبالیہ پیش کرنے کے بعد شاعری سے محظوظ کیا۔صدارتی کلمات میں ڈاکٹر ترنم ریاض نے کہاکہ ہم اورہمارے  ہمسائے زبان کی بنیاد پر جڑے ہوئے ہیں اردو زبان جب تک زندہ ہے ہماری قربتیں زندہ رہیں گی۔اور کلچر ل وثقافت کی بنیاد پر میں یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ جس طرح ہمارے ملک میں جاں نثار اختر گلزار اور جاوید اختر ہیں اسی طرح پاکستان سے آئے امجد اسلام امجد بھی ہیں۔ہم توقع کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام خوشحال مستقبل کے زندگیاں جئیں گے۔ادبی نشست کے اہم شرکاء میں کے ایل نارنگ، اسرار جامعی، ڈاکٹراحمد علی برقی اعظمی،انجم عثمانی،شہباز ندیم ضیائی،حبیب سیفی، نسیم عباسی،راز سکندرآبادی،وریندرقمر، عبد الرحمٰن منصور،زہینہ صدیقی،بیگم وسیم راشد،اجے کمار عکس،ڈاکٹر واحد نظیر،ناگیش چندرا،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔سردار عازم کوہلی نے تمام 
شرکاء کا شکریہ اداکرتے ہوئے نشست کے اختتام کااعلان کیا۔
احمد علی برقی اعظمی،امجد اسلام امجد کو روحِ سخن
پیش کرتے ہوئے

ہفتہ، 4 اکتوبر، 2014

کربِ عصیاں مضطرب پیشانیوں سے جھڑ چکا ۔۔ ناصر ملک

ناصر ملک
بر سرِ آ شفتگی ہے ماجرائے سوختہ
اک تماشائے جنوں ہے انتہائے سوختہ
اک صدائے العطش نے بھید کھولے ہیں سبھی
ایک دریا بہہ رہا ہے ماورائے سوختہ
عمر بھر منظور تھی جلتے چراغوں کے لیے
رفعتِ شعلہ نوائی کو بقائے سوختہ
لکھ چکا ہے وقت بابِ مرقدِ تہذیب میں
آتشِ تر دامنی سے افترائے سوختہ
کربِ عصیاں مضطرب پیشانیوں سے جھڑ چکا
معبدوں میں اُڑ رہی ہے خاکپائے سوختہ
ابرِ باراں کی سخاوت پر دل و جاں ہیں نثار
چند بوندیں ڈھونڈ لایا ہے برائے سوختہ
کیا طلسمِ جاں کنی تھا لرزہ ءِ ماہِ تمام
اک فغاں دریا سے پھوٹی، شعلہ ہائے سوختہ

۔۔۔۔۔ ناصر ملک ۔۔۔۔۔

جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

عشق میں ہار کے اب سارے ہنر بیٹھے ہیں ۔۔ اوصاف شیخ

اوصاف شیخ
عشق میں ہار کے اب سارے ہنر بیٹھے ہیں
تجربہ ہم بھرے بازار میں کر بیٹھے ہیں
شائد اس بار تو رک جائے اٹھا لے ہم کو
ہم ترے راستے میں بار دگر بیٹھے ہیں
ڈھونڈنے نکلے تجھے خود کو گنوا کر آئے
تھام کے مٹھی میں اب گرد سفر بیٹھے ہیں
میں رہا ایک ستارے کے لیئے سرگرداں
کہکشائین ہیں یہاں شمس و قمر بیٹھے ہیں
ہم کہ خبروں کے تعاقب میں رہے سرگرداں 
اور اب یہ ہے کہ خود بن کے خبر بیٹھے ہیں
جس سے طوفان کی مانند وہ گزرا اوصاف
مل کے ہم آج بھی وہ راہگزر بیٹھے ہیں

منگل، 30 ستمبر، 2014

میں اس گلاب کی سیرت میں ڈھل گیا خود بھی ۔۔ افراسیاب کامل

افراسیاب کامل
جو موجِ سبز تغافل شعار ہو جائے
گلاب دم بھی نہ لے اور غبار ہو جائے
میں اس گلاب کی سیرت میں ڈھل گیا خود بھی
جو میرے جسم سے لپٹے تو خار ہو جائے
نوائے بلبل و قمری ہو تیری سانسوں میں
نظر سے باغِ سحر ہمکنار ہو جائے
تمام عمر یہ قرضہ مجھے بھی یاد رہے
تمہارے جسم کا ریشم ادھار ہو جائے
نہ اور ظلم اٹھاو کہ ظلم کے پیچھے
چھپی نگاہ کو ہم سے نہ پیار ہو جائے
یہ میرےسحر کی طاقت ہے میرا دشمن بھی
خود اپنے وہم کا خود ہی شکار ہو جائے
کئی چراغ شگافوں سے منہ اٹھانے لگیں
جب اس نگہ سے ہوا تار تار ہو جائے

اتوار، 28 ستمبر، 2014

مرے مزاج کا غُصہ گیا نہیں مجھ سے اٖفضل گوہر راو

افضل گوہر راو
مرے مزاج کا غُصہ گیا نہیں مجھ سے
کہ یہ الاؤ کسی دن بُجھا نہیں مجھ سے
تماشہ دیکھنے والوں سے شرمسار ہوں میں
بنا رھا تھا تماشہ بنا نہیں مجھ سے
میں تیری خاک کے سب بھید بھاؤ جانتا ہوں
یہ چاک اور یہ کوزہ نیا نہیں مجھ سے
مراقبے میں پڑی شب کو چُپ لگی ایسی
سخن کسی بھی دِیے نے کِیا نہیں مجھ سے
کچھ اتنا تیز بہاؤ تھا غم کا دل کی طرف
ھزار روکنا چاہا، رکا نہیں مجھ سے
وجودِ خاک پریشان کر رہا تھا مجھے
سو بارِ عمر زیادہ اُٹھا نہیں مجھ سے

ہفتہ، 27 ستمبر، 2014

چاند تارے مرے پہلو میں فروزاں کردے ۔۔ راجہ اسحقٰ

راجہ اسحقٰ
اس کے وعدوں کا بھرم کھلنے پہ حیراں ہوا ہوں
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پریشاں ہوا ہوں
میرے ہونے کی گواہی تو اُسی نے دی تھی
اپنے دشمن سے میں نا حق ہی گریزاں ہوا ہوں
لے گیا کوئی محبت کا خریدار مجھے
تم نے دیکھا ہے میں کس شان سے ارزاں ہوا ہوں
چاند تارے مرے پہلو میں فروزاں کردے
شہرِ خوباں میں تری رات کا مہماں ہوا ہوں
موج در موج سمندر لیے پھرتا ہے مجھے
جتنا ڈوبا ہوں میں اتنا ہی نمایاں ہوا ہوں

قمر سُلطانہ سیّد کا شعری مجموعہ ،،چاندنی،، ۔۔۔۔ تعارف نگار: سید انورجاویدہاشمی


ہم تو کہتے ہیں یہ اک خیرات ہے خورشید کی
مستقل  ا ہلِ نظر  کہتے ہیں جس کو  چا ند نی
۔۔۔۔۔۔۔

چا ند نی  قمر سُلطانہ سیّد  کا  شعری مجموعہ روباب  عبدالصمد کی کپوزنگ اور م۔م۔مغل کے بنائے سرورق کے ساتھ مشتاع  مطبوعات  کے زیر اہتمام تیار و طباعت کے مراحل سے گُزرکر سیّد احمد علی شاہ انور اکیڈمی،نارتھ ناظم آباد کراچی ناشر کی وساطت سے ہم تک پروفیسرعبدالصمدنورسہارن پوری صاحب نے پہنچایا اور فرمایا کہ ہماری اُستاد بہن [شاگرد استاد نصیر کوٹی] نے آپ کی نذر یہ مجموعہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ '' قمر سلطانہ کی شاعری اُن کے جذبات کا آ ئینہ ہے اور ان حالات کی عکاسی کرتی ہے جن کا سامنا وہ زندگی بھر کرتی رہیں نیر وہ احساسات بھی ان کے کلام کا حصّہ ہیں جن کا اثر اُن کے دل پر ہوا۔محترمہ زندگی بھر کسی نہ کسی کٹھن وقت کا سامنا کرتی رہیں وہ ایک بہادر خاتون ہیں اس لیے مشکلات اُن کا کچھ نہ بگاڑسکیں اور وہ اپنی زندگی کی ذمّہ داریاں خوش اسلوبی سے سرانجامد دیتی رہیں جب کہ شاعری میں اپنے غموں کا اظہار کرتی رہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں غمِ زندگی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔"
حیدرآباد دکن کے مقام پربھنی میں پیداہوئیں والد سیدانورعلی شاہ عمرکوٹی کے ساتھ ہجرت کرکے سندھ تھرپارکر کے مقام عمر کوٹ آگئیں 1956ء میں رشتہ ء ازدواج میں بندھنے کے بعد 1971ء میں میٹرک،1976ء میں بی اے کیا گورنمنٹ ہائی اسکول میں درس و تدریس کے ساتھ ہی ماسٹرز اردو کی ڈگری اور معلمہ کا کورس بھی کیا۔والد کا مجموعہ '' فکرِ انور' کے نام سے اور اپنا ۱۱۲ صفحات کا ' چاندنی ' شایع کرچکی ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ کچھ دیر پہلے ہماری نظر سے ان کا نام گذرا تھا ۔برادر محترم عبدالوحید تاج نے ہمیں مُقدّمہ ء سحر و شاعری [قارئین ِ ادب کی عدالت میں] جمیل نظر کی معرکۃ الآراء تحقیقی و تنقیدی کتاب عطیہ کی وہی مطالعے میں تھی جب یہ کتاب ملی ۔جمیل نظر صاحب نے اپنے دور کے کراچی کے اساتذہ اور دوسری ،تیسری نسل کے شعراء، نقاد، مبصر،مدیران،ریڈیو،ٹی وی کے شعراء کی فہرست کے ساتھ خواتین شاعرات کے اسماءے گرامی میں فاطمہ حسن سے پروین ناز تک ۲۳ شاعرات کی فہرست میں قمرسلطانہ سیّد کا نام بھی شامل کیا ہے صفحہ۴۰ مذکورہ کتاب۔ 240صفحات کے شعری مجموعے '' چاندنی ' کا انتساب شاعرہ نے اپنے والد کے نام کیا ہے[دیکھیے عکس]صفحہ ۵ تک تفصیلات  کتاب اورچھ تا ۱۱ فہرست،صفحہ ۱۲ پر کچھ اپنے بارے میں شاعرہ کے تاثرات،تراب بروھی لاڑکانوی کا سندیِ زبان میں عرض ِ حال،پروفیسر ظہیراحمدظہیر کی تقریظ صفحہ        ۲۵ تا ۲۸؛حمیدہ رحمٰن کھوکحر کے تاثرات ۲۹ تا ۳۵ اور نورسہارن پوری صاحب کا قمرسلطانہ کی شاعری کا مختصرسا تعارف صفحہ 36 تا ۳۹ شامل ہیں۔۔حمد۔نعت۔منقبت،سندھی کلام ،75 غزلیات اورقطعات،نذرانہ ء عقیدت نوری شہید،فاطمہ جناح، مسلمان،وطن کے نونہالوں کے نام قمرسلطانہ کا پیغام[معلمہ جو سندھی زبان کی تدریس کرتی رہی ہیں]بابائے پٹھان جسٹس سردار عبدالجبار خان کے انتقال پر احساسات،داستانِ ستم،زلزلہ،قومی ترانہ،ہدیہ ء تہنیت دعائیہ،رشتے داروں کے نام،بیٹے اکبر نعیم کے لیے قطعہ،والدہ کے انتقال پر نوحہ،آخر میں والدین کی یادنگاری پر
مشتمل قمر سلطانہ سیّد کے مجموعے '' چاندنی '' کی قیمت 350/=روپے ملنے کا پتاکولمبیا اپارٹمنٹ فلیٹ نمبر بی 13تھرڈفلور،ایس سی ۹،بلاک این نارتھ ناظم آباد کراچی۔

جمعہ، 26 ستمبر، 2014

زندگی تجھے میں نے [ایک نظم] ۔۔ انور زاہدی

انور زاہدی
زندگی تجھے میں نے 
کس جگہ نہیں دیکھا
صبح کے سویرے میں
شام کے اندھیرے میں
روز کے اُجالے میں
رات کے حوالے میں
خالی گھر کے آنگن میں
رات کی منڈیروں پر

بدھ، 24 ستمبر، 2014

آفاقی شعور اقبالؔ کے بعد مجید امجدؔ ہی کی نظم میں پوری طرح اُجاگر ہوا ہے ۔۔ تحریر وترتیب شکیل قمر

مجید امجدؔ نے جس آفاقی شعور کا مظاہرہ کیا ہے وہ اقبالؔ کے بعد مجید امجدؔ ہی کی نظم میں پوری طرح اُجاگر ہوا ہے       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
تحریر وترتیب شکیل قمر۔ بلیک پول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بر صغیر پاک و ہند کے اُدباء اور شعراء میں مجید امجد کوئی پہلا نام نہیں ہے جو معاشرے کی بے رحمی کی بھینٹ چڑھا ہو،تایخء اُردو اَدب اُٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو ایسے لوگوں

منگل، 23 ستمبر، 2014

ساتھ تھا بس خدا اور خدا رہ گیا ۔۔ سلیم شائم

سلیم شائم
کہنے سننے کو اب اور کیا رہ گیا
ساتھ تھا بس خدا اور خدا رہ گیا
وقتِ آخر سے پہلے وہ لوٹ آئے گا
بس اِسی آس پر در کھلا رہ گیا
میرے پندار کو اُس نے روندا بہت
جس کی صورت کو میں پوجتا رہ گیا
کتنی پختہ تھیں اس شخص کی نفرتیں
جس کی قربت میں بھی فاصلہ رہ گیا

پیر، 22 ستمبر، 2014

انتظار حسین کو فرانس سے آرٹ اینڈ کلچر ایوارڈ ملنے پر منظوم تاثرات: برقی اعظمی

بزمِ ادب کی شمعِ فروزاں ہیں انتظار
افسانوی ادب میں جوہیں فخرِ روزگار
عہدِ رواں کے اہلِ قلم میں ہین معتبر
ان کی نگارشات کو حاصل ہے اعتبار
ہے ناولوں میں روحِ زماں ان کے منعکس
افسانے ان کے اردو ادب میں ہیں شاہکار
باضی کی بازگشت ہیں ان کی نگارشات
’’ دلی تھا جس کا نام ‘‘ بھی ہے اُن کی یادگار

کل شب لگائی نیند کے چھونکے نے دل پہ نقب ۔۔ ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی

ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی
پیکر پسِ غبار چھپا لے گئی ہوا
تجھکو مری نظر سے بچا لے گئی ہوا
کل شب لگائی نیند کے چھونکے نے دل پہ نقب
طشتِ خیال یار اٹھا لے گئی ہوا
خوشبو ترے بدن کی رہی ساتھ چند سانس
لائی تھی اپنے ساتھ ہوا لے گئی ہوا
رکھے تھے میری میز پر کچھ پھول کچھ خطوط
کھڑکی کھلی ملی تو اڑا لے گئی ہوا

اتوار، 21 ستمبر، 2014

مَیں نے آنکھوں پہ کھڑی کی تھی عمارت اپنی ۔۔ سعید شارق

سعید شارق
مسند ِ عشق ہماری ہے نہ وحشت اپنی
کون چلنے دے سر ِ دشت حکومت اپنی
اپنے جیسا کوئی انسان تو ملنے سے رہا
مَیں بھلا کس پہ جتاؤں گا محبت اپنی
کار ِ دشوار نہیں خواب نگاری لیکن
کور چشمی سے بھی کچھ کم ہے بصارت اپنی
دل پہ تقلید ِ غم ِ رفتہ میں اُترا ہے ملال
یہ پیمبر کہاں لایا ہے شریعت اپنی

ہفتہ، 20 ستمبر، 2014

میر ے سو ا نہ ہو گا کوئی ایسا خوش گماں ۔۔ سید انور جاوید ہا شمی

سید انور جاوید ہاشمی
جس کو ہوا ہو ذ و ق مُیسر مر ے سوا
لکھتا ہے کون جا گتے شب بھر مرے سوا
لبٌیک جس نے گر د ش- دوراں سے کہہ دیا
آ یا نہ کو ئی گھر سے نکل کر مر ے سو ا
رہتا ہو جو ہُنر کی تر ا ش و خر ا ش میں
محفل میں ہے بتا ئیں سُخن ور مر ے سوا
میر ے سو ا نہ ہو گا کوئی ایسا خوش گماں
د یکھا کو ئی یقین کا پیکر مر ے سو ا 

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

پھر سے دیکھوں میں شہر ِ رسول ِ اُمم ۔۔ ناز بٹ

ناز بٹ
اے صبا اب اڑا مجھ کو سوئے حرم 
پھر سے دیکھوں میں شہر ِ رسول ِ اُمم
شہر ِ عظمت کو کھنچنے لگا میرا دل
خوشبو ئے شوق ہو جا مری ہم قدم
میری ہر سانس ہو وقف ِ ذکر ِ نبی
ہو اسی سے مرے روز و شب کا بھرم
عشق جس دل میں سرکار کا بس گیا
کب رہے پھر بھلا اس میں دنیا کے غم
گنبد ِ سبز کی یاد آئی جہاں 
مٹ گئے ہیں وہیں سارے رنج و الم
اے شہہ ِ دوسرا خاتم المُرسلاں
آپ کے دم سے قائم رہے میرا دم
حبس حد سے بڑھا آپ یاد آ گئے 
کُھل کے برسا مرے سر پہ ابر ِ کرم
میری بخشش کا سامان ہو جائے ناز 
ہو جو مدح ِ نبی میں رواں یہ قلم 

بدھ، 17 ستمبر، 2014

نظر کی ٹھیس سے ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں میں ۔۔ گلُریز‬ رُوحـانی- اَمر رُوحـانی

گلُریز‬ رُوحـانی- اَمر رُوحـانی
نظر کی ٹھیس سے ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں میں
کہ پور پور خراشوں سے پٹ گیا ہوں میں
تری تلاش میں خود کو الٹ پلٹ ڈالا
تجھے کرید کے خود سے لپٹ گیا ہوں میں
نہیں رہی وہ کھنک کوئی ٹھیکرے والی
نہ جانے کون سی مٹی سے اٹ گیا ہوں میں
جو ایک پھونک تفوّق کی مجھ میں پھیل گئی
اسی ہوا کے دباؤ سے پھٹ گیا ہوں میں
یہ تیری دی ہوئی طاقت ہے اے زوال مرے 
ترے عروج کے آگے بھی ڈٹ گیا ہوں میں
بس ایک دید ہی کافی ہوئی سرِ محمل
بس اک نظر میں ترا عکس رٹ گیا ہوں میں
یہ کائنات مری وسعتوں کا نقطہ ہے
یہ راز جان کے خود میں سمٹ گیا ہوں میں
ترے خرام سے خائف ہیں یہ مہ و انجم
مرے نصیب! تری رہ سے ہٹ گیا ہوں میں
نشست گاہ کے صوفوں پہ گرد بیٹھی ہے
غمِ جہاں میں زمانے سے کٹ گیا ہوں میں

پیر، 15 ستمبر، 2014

ہاتھی جنگل ۔۔ سعادت سعید

ڈاکٹر سعادت سعید
ہاتھی جنگل انسان کا مسکن نہیں بن سکتا
یہ اعصاب شکن چِنگھاڑتے وَحشیوں کا ٹھکانہ ہے
اس جنگل کے کھَڈّو ں میں 
شریانوں کی فصلیں کچلی جاتی ہیں 
ہر طرف پیڑوں کی شاخوں سے جھولتے الجھتے،
خون میں لتھڑے بوڑھے گھاگ سونڈ ہیں 
ایسےلمبے کان ہیں جن کوچیخیں سنائی نہیں دیتیں 
ان ہاتھیوں کے بڑے پیٹوں کی دلدلوں میں 
ڈوبنے والے سلامت نہیں رہتے
آنکس اور بیڑیاں رکھنے والے
مہاوت اورمحافظ سب کے سب اُن ہاتھیوں سسے خوفزدہ ہیں 

پھولوں کی خوشبو جب پاگل کرتی ہے ۔۔ نیلما ناھید درانی

نیلما درانی
دنیا چھوڑ کے جانے کو دل کرتا ہے
واپس پھر نہ آنے کو دل کرتا ہے
تنہا ئیوں کی راتیں جب بھی آتی ہیں
گیت پرانے گانے کو دل کرتا ہے
پھولوں کی خوشبو جب پاگل کرتی ہے
باغوں میں بس جانے کو دل کرتا ہے
جب اپنوں کے چہرے خالی لگتے ہیں
پھر سے انھیں بنانے کو دل کرتا ہے
اب تو عادت ہو ہی گئی ویرانوں کی
پھر بھی کبھی گھر جانے کو دل کرتا ہے

جمعرات، 11 ستمبر، 2014

زخم دل بھرنےسے پہلے، پھرہراہوجائےگا ۔۔ گلزیب زیبا

گلزیب زیبا
غم جدائی کا تسسلّی سےسوا ہوجائےگا
مجھکو کیا معلوم تھا یہ لا دوا ہو جائے گا
بارشیں یادوں کی تیرے پھر برسنے آگیئں
زخم دل بھرنےسے پہلے، پھرہراہوجائےگا
کیاخبرتھی زندگی اک دشت میں ڈھل جائےگی
ذھن بھی بس اک بھٹکتا قافلہ ہوجائے گا
ایک ہچکی کی ہےبس مرہون منت زندگی 
تیرے جانے پرمرا بھی فیصلہ ہو جائے گا
گھرسےہم نکلیں گےننّھی سی خوشی کوڈھونڈنے
اک بڑے دکھ سے ہمارا سامنا ہو جائے گا 
ساتھ توچھوڑےگامیرا،سنگ اسکےجاوں گی
موت سے میرا کیا وعدہ وفا ہو جائے گا
جومرے دل میں رہاہےمیری دھڑکن کی طرح
میرے پہلو سے نکل کر دوسرا ہو جائے گا 
جان کر اس نے کیا میری اُمنگوں کا لہو 
بےخطا کہنےسےکیا وہ بےخطا ہوجائےگا؟
چھوُلیا پتوار کو، گھبرا کے طوفاں دیکھ کر
ایسا کر لینے سے کیا وہ ناخدا ہو جائے گا 
اس نےمجھکومارڈالا حیرتوں کی تیغ سے 
تھا گُنہ تک سوچنا وہ بےوفا ہو جائے گا
جائے گا مکّے مدینے چند ہفتو ں کے لیئے 
دودھ سےدُھل کروہ پھرسے پارسا ہوجائےگا

پیر، 8 ستمبر، 2014

مگر یہ فطرتِ بے باک میری ۔۔ شہزاد نیئر


کہاں ہے وحشتِ نم ناک میری
بہت اڑنے لگی ہے خاک میری
 نہ اتنا ذکر ہو باغِ عدن کا
وھیں چھینی گئی پوشاک میری
 بدن کی شاخ سے میں اڑ چکا تھا
کہاں رکھتا رہا وہ تاک میری
 میں چپ رہتا تو بچ سکتی تھی گردن
مگر یہ فطرتِ بے باک میری
 مجھے ہی بھوک میں کھانے کو دوڑے
تمنا اس قدر سفاک میری
 عدو سہمے کھڑے ہیں ، میں نہیں ہوں
عجب بیٹھی ھوئی ہے دھاک میری
 مرے پہلے گنہہ کے بعد نیر
بہت روئی سرشتِ پاک میری
  

غزل گوئی صاحب کھلونا نہیں ہے ۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

سید انور جاوید ہاشمی
ا گر سُو ے شہرِ غز ل جا ئیے گا
تو د ا من بچا کر نِکل جا ئیے گا
اُ سے آ ئنہ د یکھتے د یکھ لیں گر
سر ِ آ ئینہ مت مچل جا ئیے گا
نجو می کا اِرشاد محتاط ر ہیئے
نہ جا ئیں اُ د ھر آج کل جائیے گا
نظر کا پھِسلنا تو کار ِ د گر ہے
اُ سے د یکھ کر مت پھِسل جائیے گا
کبحِ مثل ِ سا یہ سر شاخ ر ہ کر
ثمر د ا ر ہو کر کے پھل جا ئیے گا
ا گر نا م ر کھنا ہے باقی جہاں میں
کو ئی کر کے ا چھّا عمل جائیے گا
غزل گوئی صاحب کھلونا نہیں ہے
کہ سُن لیجیے گا بہل جا ئیے گا
سیّد انور جاوید ہاشمی،کراچی

بدھ، 3 ستمبر، 2014

یاد کی بوندیں (ایک نظم) ۔۔ انور زاہدی

انور زاہدی
تمہاری یاد کی بوندیں
دل آزردہ آنگن میں
یونہی برسا کریں گی بس
بدل جائیں گے سب موسم
فلک صحرا کی صورت میں
زمیں تکتا رہے گا
پرندوں کی طرح پتے درختوں سے
جُدا ہوکے
کسی سرسبز رُت کی 
ان کہی چاہت میں
غیبی آستانوں کی طرف 
ہواوں میں سمٹ کے بکھر جائیں گے
رُت بھی ڈھل جائے گی اور 
زمان و مکاں بھی بدل جائیں گے
صبح ہوگی 
مگر اُس گُلابی سحر کو ترستی رہے گی
راتیں اپنے تواتر سے آیا کریں گی
شب وصل ڈھونڈیں گی
محو ہو جائیں گی یاد سے صورتیں
بس دئیے جلتی آنکھوں کے 
ویراں منڈیروں پہ رکھے ہوئے 
شب کی تنہائی میں
آسماں سے 
اُترتی ہوئی اوس میں 
جگنووں کی طرح 
بھیگی آنکھوں کی مانند جل جائیں گے
ایک خاموش تنہائی میں
یاد کی بوندیاں 
یونہی برسا کریں گی

ڈال دے تو قفل کوئی پیار کی زنجیر کا .. وشمہ خاں وشمہ

وشمہ خاں وشمہ
کردیا سودا میرے ہر خواب کی تعبیر کا
گردش دوراں نے میرے پیار کی تفسیر کا
بے وفائی جب مقدر بن کے چمکے چار سو
بے اثر ہر لفظ ہوگا عشق کی تحرہر کا
یہ اندھیرے قلب کو تسکین دیتے ہیں میرے
اس لیے احسان لوں کیوں بے وجہ تنویر کا
بے وفائی سہہ کہ یہی زندہ ہوں یارو اس سے
جان سے پیارا ہے مجھ کو فیصلہ تقدیر کا
یہ تخیل مار ڈالے نہ کہیں وشمہ تجھے
ڈال دے تو قفل کوئی پیار کی زنجیر کا

منگل، 2 ستمبر، 2014

یہ جنگ اصل میں ہے اقتدار والوں کی جنگ ۔۔ قمر رضا شہزاد

قمر رضا شہزاد
یہاں غریب ہی کیوں بےگناہ مارا جائے
کوئی وزیر کوئی بادشاہ مارا جائے
میں جانتا ہوں یہاں عدل کرنے والوں کو
کسی کو کچھ بھی نہ ہو اور گواہ مارا جائے
یہ جنگ اصل میں ہے اقتدار والوں کی جنگ
ہمارے جیسا یہاں خوامخواہ مارا جائے
لہو میں ہر گھڑی پھنکارنے لگا ہے عشق
اٹھائو ہاتھ یہ مار ِ سیاہ مارا جائے
میں اپنے دل کے لئے فکرمند رہتا ہوں
نجانے کب یہ میرا خیرخواہ مارا جائے

اتوار، 31 اگست، 2014

اب رابطہ نہیں ہے کسی سے نہ سلسلہ ۔۔ وشمہ خان وشمہ

ہم کو تو عاشقی نے مراسم سکھا دئیے
اور ہم نے غم زمانے کے سارے مٹا دئیے
جب مل گیا تھا تجھ سے مقدر کا فلسفہ
تو ہم نے غم کے سارے ہی لمحے بھلا دئیے
اب کس طرح کروں بھلا شکوہ فراق کا
چہروں میں دوستوں کے جو دشمن ملا دئیے
میں قید ہوں زمانے کے رسم و رواج کی
زہریلے جام ہم کو جو سب نے پلا دئیے
اب رابطہ نہیں ہے کسی سے نہ سلسلہ
جتنے خطوط تھے سبھی ہم نے جلا دئیے

منگل، 26 اگست، 2014

معروف ادیب اور ناول نگار علیم الحق حقّی انتقال کر گئے۔

معروف ادیب اور ناول نگار علیم الحق حقّی تین ماہ کی شدید علالت کے بعد وفات پاگئے ہیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ ان کے معروف ناولوں میں عشق کا عین، عشق کا شین، بساط،زنداں نامہ، جانم جان جہاں،تاش کے پتے، قصہ ایک داماد کا،انسانی قیامت اور پس نقاب کے نام شامل ہیں

پیر، 25 اگست، 2014

مدتوں بعد میں آیا ہوں پرانے گھر میں ۔۔ حسن عباسی

حسن عباسی
تیری مشکل نہ بڑھاؤں گا چلا جاؤں گا
اشک آنکھوں میں چھپاؤں چلا جاؤں گا
اپنی دہلیز پہ کچھ دیر پڑا رہنے دو
جیسے ہی ہوش میں آؤں گا چلا جاؤں گا
مدتوں بعد میں آیا ہوں پرانے گھر میں
خود کو جی بھر کے رلاؤں گا چلا جاؤں گا
چند یادیں مجھے بچوں کی طرح پیاری ہیں
ان کو سینے سے لگاؤں گا چلا جاؤں گا
خواب لینے کوئی آئےکہ نہ آئےکوئی
میں تو آواز لگاؤں چلا جاؤں گا
میں نے یہ جنگ نہیں چھیڑی یہاں اپنے لیے
تخت پہ تم کو بٹھاؤں گا چلا جاؤں گا
آج کی رات گزاروں گا مدینے میں حسن
صبح تلوار اٹھاؤں گا چلا جاؤں گا

ہمارے نام کا پرچم سخن آباد میں آئے ۔۔ صبیحہ صبا

صبیحہ صبا
خوشی گاہے بگاہے اس دلِ ناشاد میں آئے
دلِ ویران بھی تو کوچہِ آباد میں آئے
یونہی سب قافلے بس جانب منزل روانہ ہیں 
کوئی پہلے چلا جائے تو کوئی بعد میں آئے
خدا جانے ہمارے دل میں کیسے نرم گوشے ہیں 
کوئی دشمن بھی کیوں اک ناگہاں افتاد میں آئے
وہ قصّہ آج بھی تازہ کسی انداز میں ہو گا
وہ سب کردار جیسے مجنوں و فرہاد میں آئے
یہ جذبے ہیں مگر اس میں بڑی بے اختیاری ہے
جو چہرہ بھولنا چاہوں وہی تو یاد میں آئے
ہزاروں سوچ کے مرکز ہزاروں فکر کے محور
خیال اس کا کبھی تو گوشہِ آزاد میں آئے
ریاضت اپنے فن میں ہم نے کر کے دیکھ لی شاید
ہمارے نام کا پرچم سخن آباد میں آئے

جمعرات، 21 اگست، 2014

نالہ شب گیر:عظیم فن کار کی عظیم پیش کش .. عمران عاکف خان

لیجیے دیکھتے ہی دیکھتے مشرف عالم ذوقی کاایک اورشاہ کار ،ایک او رپیش کش اور ایک اور ناول منظر عام پر آگیا حالانکہ ابھی سابقہ ناولوں کا خمار سر وں میں سمایاہوا ہے اور ان کا حصارذہنوں کے ارد گرد باقی ہے۔نالہ شب گیر__بالکل انوکھے انداز ،نادر خیال ،انجان موضوع او راجنبی تعبیرات و تلمیحات پر مبنی۔گو اسے انجان اور اجنبی نہ کہا جائے اس لیے کہ عورتوں سے متعلق منٹو،عصمت چغتائی ،خدیجہ مستور،رشیدجہاں ،واجدہ تبسم، ممتاز شیریں، کشور ناہید(بری عورت کی آتم کتھا)، تسلیمہ نسرین (میں تسلیمہ کی حمایت نہیں کرسکتا مگر تسلیمہ نے سب سے زیادہ عورتوں پر ہی لکھا ہے)،

پیر، 18 اگست، 2014

خدا سب کو یاد رکھتا ہے۔۔ آصفہ نشاط کا خوبصورت افسانوی مجموعہ(تحریر ناصر ملک)

یو ایس اے میں مقیم پاکستانی نژاد افسانہ نگار آصفہ نشاط کا مجموعہ "خدا سب یاد رکھتا ہے" عہدِ موجود کے چند بہترین افسانوں پر مشتمل ہے۔ "کتاب بہترین ساتھی ہے، اس سے پیار کیجئے" کا ننھا سا ترغیب نامہ کتاب کے ابتدائی صفحات پر موجود ہے جس کے بعد احبابِ سخن کی مختصر آراء اور پھر آصفہ نشاط کے ہنر کو اسد اللہ حسینی چکر ،عطیہ نیازی،سید ظفر عباس، عرفان مرتضیٰ، رضوانہ اقبال ایمن اور مجید اختر کے منظوم خراجِ تحسین کتاب کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ 
اس خوب صورت افسانوی مجموعے میں ستائیس افسانے شامل کیے گئے ہیں جو اپنے موضوعات اور تنوع کے لحاظ سے ناقابلِ فراموش ہیں ان کے عنوانات؛ صورتِ خورشید، سیانی، شناخت، شطرنج، صفحہ سات کالم چار، وظیفے کا پیالہ، ڈاکٹر جنید کی بالادستی، دوزخن، فنکار، جنریشن گیپ، آئیڈیل پیکجز، جہاں تیرا ہے، جنت+جنت، جو رہی سو بے خبر رہی، لیری پارکر کو کال کرو، مستقبل، رنگ، آگے چٹان نہیں ہے، ابو نصر ابو نصیر، بون سائی، بھابھی کی لیبارٹری، چھٹا کلمہ رد کفر، چھوٹی بریکٹ شروع بڑی بریکٹ بند، خدا سب یاد رکھتا ہے، وہ بات سارے فسانے میں اور ۔

بدھ، 13 اگست، 2014

اک مرا دل ہی نہیں جسم اور جا ں بھی ہے تری ۔۔ سبیلہ انعام صدیقی

اک مرا دل ہی نہیں جسم اور جا ں بھی ہے تری
میرے ہو نٹو ں پر ترے ہی نام کی گر دان ہے۔
اے وطن تجھ سے ہے میری کائنات ِ زندگی
سر ز مین پاک کا مجھ پر بڑا ا حسان ہے
تیرے دہقا نو ں نے کی ہے سا ری تزئینِ چمن
اس لئے شا داب اب ہر ایک نخلستان ہے
اے خدا ہو ذرہ ذرہ اس کا اب رشک ِ چمن
اس گلستاں سے ہی وا بستہ تو میری جان ہے
میں مسرت اورآ زا دی سے جو لیتی ہو ں سا نس
اے وطن تو نے ہی بخشی مجھ کو عز و شان ہے
یہ مری ما ں ہے سبیلہ ، یہ مقدس سر زمیں
اس کےآنچل کے تحفظ میں ہی میری آ ن ہے

اتوار، 10 اگست، 2014

حیرت نے میری مجھ کو کیا آئینہ مثال ۔۔ اشرف نقوی

اشرف نقوی
پہلے تو اپنی ذات سے مِنہا کیا مجھے
پھر اُس نے سارے شہر میں تنہا کیا مجھے
حیرت نے میری مجھ کو کیا آئینہ مثال
اور آئینہ بھی ٹُوٹنے والا کیا مجھے
ہاتھوں کے ساتھ ہی میری مٹی ہوئی خراب
کُوزہ گری کے شوق نے رُسوا کیا مجھے
میں بھی بھنور کی لہروں میں گُم ہو گیا کہیں
شدت نے میری پیاس کی ، دریا کیا مجھے
میں کہ تھا اپنی ذات میں اِک بحرِ بے کراں
لیکن غرورِ دشت نے صحرا کیا مجھے
پہلے مِری جدائی نے مجھ کو کیا نڈھال
پھر میرے ہی وصال نے اچھا کیا مجھے
جو اِس نگاہِ شوق میں تھی دید کی طلب
اُس نے کسی فقیر کا کاسہ کیا مجھے
یوں تو سمجھنا پہلے ہی مجھ کو محال تھا
اِک رازِ کُن نے اور بھی گہرا کیا مجھے
فکرِ معاش کھا گئی کچھ تو وجود کو
اور کچھ جنونِ عشق نے آدھا کیا مجھے
پیروں میں جو زمین تھی ، وہ سر پہ آ گئی
ماضی کا کوئی وقت نے قصّہ کیا مجھے
اشرف میں اِس زمین پہ ہوں نائبِ خدا
یونہی نہیں فرشتوں نے سجدہ کیا مجھے
اشرف نقوی