ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعہ، 28 فروری، 2014

غزل ، افضال نوید ٹورنٹو

افضال نوید، ٹورنٹو
شورِ سلاسل جاں کا وبال رہا
قیدِ رسوم میں مَیں بے حال رہا
کوششِ زیست میں عمر رہی برباد
بندشِ مَے میں قحطِ وصال رہا
کام یہاں تھا اورمگر ہم پر
کارِ معاشِ سخت کا جال رہا
دیواروں کو اَوج رہا اتنا
کارِ محبّت کارِ زوال رہا
شاخِ حنا تُو کس کے ہاتھ لگی
بادِ خزاں تجھے کس کا خیال رہا
خاک مری بیمار رہی اُس کی
شہرِ وجود میں اضمحلال رہا
آتے جاتے دنوں کے ملبے پر
گرد و غبارِ ماہ و سال رہا
تُو نے کان دھرا ہوتا اے کاش
ہم کو تجھ سے ایک سوال رہا
کس سے حال کہوں دل کا کہ یہ دل
کتنا چپ اور کتنا نڈھال رہا
اُس گھر نے ہمیں درد دیا کتنا
تُو جس کے آنگن میں نہال رہا
کس کس بام سے کائی جھانک رہی
کیا کیا سبزہ پائمال رہا
کس کس کا یاں سوگ منائیں ہم
کس کس کا یاں استحصال رہا
تن کا زنگ اُتارنے کی خاطر
کس کس مَے کا استعمال رہا
کہاں کہاں کی ہجرت کی مَیں نے
کیسے کیسے پنچھی پال رہا
مٹّی سے موتی کے جھلکنے تک
آمیزہ کیا کیا کھنگال رہا
اور طرف سے آتی رہی مجھ پر
ایک قیامت جس کو ٹال رہا
تیرے شہر کی گلیاں رہَیں آباد
جن میں تیرا عکسِ جمال رہا
ساون آیا بھڑکی آگ نوید
روئے نہیں ہم یہ بھی کمال رہا

غزل ۔۔ سعید آسی

سعید آسی
یہ کیسی باتیں کرتے ہو،یہ کیسا درد سموتے ہو
جب محفل محفل ہنستے تھے،اب تنہا تنہا روتے ہو
انجامِ تمنا کے صدقے،ہے کیسی دل کی بے تابی
نہ دن کو سکھ کا سانس ملے،نہ رات کو چین سے سوتے ہو
یہ زخم تو اک دن رس رس کر دل کو ناسور بنا دے گا
جب پھوڑا پکنے لگتا ہے،تم کانٹے اور چبھوتے ہو
گر داد نہیں،بے داد سہی،اس سے بھی تعلق نکلے گا
یوں میری باتیں سن سن کرتم دل میں خوش تو ہوتے ہو
تقدیر کے ساتھ الجھتے ہو،تقدیر سے مات ہی کھاو گے
جب دل میں خوشی کا عالم ہو،تم غم کے ہار پروتے ہو
اپنوں سے تو آسی جی ہم کو ہرگام پہ تازہ درد ملا
دیتے ہو تسلی چھپ چھپ کر،تم کون ہمارے ہوتے ہو

کاروانِ حیات ۔۔ ثروت زہرا

قدم بہ قدم
اس قافلے کے سفر میں کوئی جست نہیں
مگر اتنی جست ضرور ہےکہ
تمہاری آئندہ نسلوں کیلئے ٹوپیاں ڈھال کر
شاہ دولوں کی فوج تیار کر سکے
غبار در غبار
مٹی کے سینے پہ ایسی آندھیاں تو نہیں
جو آسماں چیر دیں
مگر کھنکھارتے وقت کیلئے ایسے سوال ضرور ہیں
جو اگلی صبح تمہارے دانتو٘ ں میں دبی
روٹیوں کو کر کرا کرسکیں
نظر در نظر
اتنی روشنی نہ سہی
کہ صبح کی چادر بُنی جاسکے
مگر یہ ایندھن ہماری شام کی چمنیوں کا زندہ دھواں
محبوس کر سکے گا
بوند در بوند
تھکن کے مساموں میں نمکیات کا اتنا تیز کیمیائی عمل تو نہیں
کہ اسے بارود میں تبدیل کیا جاسکے
مگر اتنا نمک ضرور ہے ہست کی بے بصارت آنکھوں کو
روز دھویا جاسکے
صدا در صدا
دوران_ سفر اتنا شور نہ سہی
جو تمہاری سماعتوں کو پار کرسکے
مگر ایک دبی چیخ ضرور ہے
جو ہماری تاریخ کے کان کے پردے پھاڑ سکے گی

بدھ، 26 فروری، 2014

ارشد شاہین کی غزل

بیچ منجھدار کنارا بھی نہیں مانگتے ہم
ایک تنکے کا سہارا بھی نہیں مانگتے ہم
ہم جنوں کیش ہیں مجبور وفا کے ہاتھوں
جان دینے کو اشارا بھی نہیں مانگتے ہم
ہم سے کیوں پھر بھی گریزاں ہو جو بخشا تم نے
تم سے اس درد کا چارا بھی نہیں مانگتے ہم
اڑتے بادل کی طرح آؤ نہ برسو پل بھر
اس طرح ساتھ تمھارا بھی نہیں مانگتے ہم
ایک کونہ ہمیں کافی ہے تمھارے دل کا
یہ جہاں سارے کا سارا بھی نہیں مانگتے ہم

پیر، 24 فروری، 2014

غزل ۔ رحمان فارس

خلقتِ شہر بھلے لاکھ دُہائی دیوے ۔۔ 
قصرِ شاھی کو دکھائی نہ سُنائی دیوے 
عشق وہ ساتویں حِس ہے کہ عطا ہوجس کو
رنگ سُن جاویں اُسے ، خوشبو دکھائی دیوے 
ایک تہہ خانہ ہوں مَیں اور مرا دروازہ ہے تُو 
جُز ترے کون مجھے مجھ میں رسائی دیوے
ہم کسی اور کے ہاتھوں سے نہ ہوں گے گھائل
زخم دیوے تو وہی دستِ حنائی دیوے 
تُو اگر جھانکے تو مجھ اندھے کنویں میں شاید
کوئی لَو اُبھرے ، کوئی نقش سجھائی دیوے !
پتّیاں ھیں ، یہ سلاخیں تو نہیں ہیں فارس !
پھول سے کہہ دو کہ خوشبو کو رہائی دیوے

عطا تراب کی ''بارش میں شریک''

شاعری اور مصوری جذبات و احساسات کے اظہار کے بہترین ذرائع ہیں۔۔اور احساسات و کیفیات کے اظہار کی ان دونوں جمالیاتی اصناف "شاعری " اور "مصوری " سے مجھے ہمیشہ سے ہی عشق رہا ہے۔یوں کہیں کہ میرے خون میں شامل ہیں۔ 
جب شاعری اور مصوری یک جان ہوجائیں تو عجب جمالیاتی منظر پیش کرتے ہیں جیسے رنگ و روشنی کی حسین کن ِمنِ۔اور ایسی بارش میں شریک ہونے کا اپنا ہی 
تبصرہ نگار: ناز بٹ

لطف ہے۔
عطا تراب کے شعری مجموعہ "بارش میں شریک" کی قرآت روحانی اور بصری تسکین کا باعث بننے کے بے شمار محاسن 
رکھتی ہے۔
"بارش میں شریک "ایک شاندار اور نفیس کتاب ہےجو تجریدی آرٹ کا سا خوبصورت منظر و مزاج رکھتی ہے۔ حرف و رنگ کا یہ حسین امتزاج ایک خوبصورت شاعری کا افقِ تازہ پیدا کرتا ھہے۔ عطا تراب کے خوبصورت الفاظ کو نہایت مہارت اور سلیقے سے فائزہ خان نے خوشنما رنگوں کا پیرھن عطا کیا ھے۔ 

ہفتہ، 22 فروری، 2014

لمز یونیورسٹی میں مجید امجد سیمینار

(دائیں سے) حارث خلیق،وحید احمد،حمیدہ شاہین،ابرار احمد،
سرمد صہبائی ،نسرین انجم بھٹی،یاسمین حمید
گورمانی مرکز علم و ادب لمز (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز) میں یاسمین حمید نے مجید امجد سیمینار کا اہتمام کیا ، پہلی نشست مقالات پر مشتمل تھی اور دوسری نشست میں سات نظم نگاروں نے اپنی نظمیں سنائیں ۔

جمعرات، 20 فروری، 2014

غزل ۔ اعجاز گل

مکانِ     خاک      کا      اب      انہدام     ہو   گیا   ہے
مکیں     کا    جتنا   لکھا    تھا    قیام     ہو   گیا   ہے
روانگی  میں    کوئی    ردّ    و    کد    نہیں     باقی 
پیامِ     رخصت     و     حرفِ    سلام     ہو   گیا   ہے
نگہ    خموش    ہوئی    ہاتھ     کی    گرفت    نہیں
حیات         دیکھ         ترا       اختتام     ہو   گیا   ہے
وہ    گرم   جوش    بدن   ہے   نہ    اب   بغل   گیری
بچھڑنے     ملنے    کا    قصہ    تمام     ہو   گیا   ہے
گلی    میں    چھوڑ    کے    عشّاق    منتظر    اپنے
وہ     لا  پتا     پسِ     دیوار   و   بام     ہو   گیا   ہے
یہ   سامعین   کہ   بیٹھے    یہاں    ہیں    وہ   ناطق      
کسی   سے    اور    کہیں    ہمکلام     ہو   گیا   ہے
 خبر    یہی    ہے    کہ    اسکی    نئی   رہائش    کا
بہشت    میں   کسی    جا   انتظام     ہو   گیا   ہے

بدھ، 19 فروری، 2014

غزل ۔ افضال نوید(کینڈا)

خُمارِ شب میں زمیں کا چہرہ نِکھر رہا تھا
کوئی سِتاروں کی پالکی میں اُتر رہا تھا
نہا رھے تھے شجر کِسی جھیل کے کِنارے
فلک کے تختے پہ چاند بیٹھا سنور رہا تھا
ھوائیں دیوار و در کے پیچھے سے جھانکتی تھیں
دُھواں لپیٹے کوئی گلی سے گُذر رہا تھا
زمیں کی گردِش کشِش سے آزاد ہورہی تھی
وہ کہکشاؤں میں دھیرے دھیرے بِکھر رہا تھا
پسند تھی گُفتگُو اُسے اور سِلسلوں کی
وہ اور دُنیا کی کھوج میں عُمر بھر رہا تھا
کہ جِس نے مُجھ کو سِکھا دیا جِسم و جاں میں رہنا
یہاں سے پہلے مَیں اِتنا عرصہ کِدھر رہا تھا
کھڑا تھا میری گلی سے باہر جہان سارا
مَیں خواب میں اپنے آپ سے بات کر رہا تھا
ہوا کا جھونکا اُداس کر کے چلا گیا ہے
ابھی ابھی تو مَیں جامِ غفلت کو بھر رھا تھا
اور اب ٹھہر جا نوید آگے تو کُچھ نہیں ہے
تُو عُمر بھر اِس خیال سے بے خبر رھا تھا

منگل، 18 فروری، 2014

معروف شاعرہ حجاب عباسی کے اعزاز میں شعری نشت

اردو لٹریری ایسوسی ایشن انٹرنیشنل کی لاھور شاخ کے صدر ناصر رضوی نے کراچی کی معروف شاعرہ حجاب عباسی کی لاھور آمد پر ان کے اعزاز میں ایک شعری نشت  پنجاب انسی ٹیوٹ  آف لینگویج ،آرٹس اینڈ کلچر کے کیفے میں منعقد کی۔تقریب کی صدارت نامور مصور اور شاعر  اسلم کمال نے کی۔
ڈاکٹر شہناز مزمل، ڈاکٹر صغرا صدف،درنجف زیبی،عینی راز، پروین سجل، تراز صائمہ،الماس روبینہ راجپوت،میجر (ر) خالد نصر، نصیر احمد،فراست بخاری،وسیم عباس،خالد نقاش،منفعت عباس رضوی،ڈاکٹر ابرار احمد،خالد یزدانی،  اعتبار ساجد اور ناصر رضوی نے اپنا کلام سنایا۔حجاب عباسی کو تقریب میں ان کے نئے مجموعے ثباتِ ہجر  کی اشاعت پر مبارک باد دی۔
آخر میں حجاب عباسی نے اپنا کلام سنایا جسے بہت پسند کیا گیا۔صدرِ نشت مصور اسلم کمال نے حجاب عباسی کو ایک منفرد لہجے کی شاعرہ قرار دیا جس کی شاعری نے نسائی ادب کو ایک نئی قوت عطا کی۔انہوں نے کراچی کے پس منظر  میں اپنا 
کلام بھی سنایا۔

پیر، 17 فروری، 2014

غزل ۔ سعید شارق

سعید شارق
گردش ِ ماہ و سال کا ایسا کوئی نظام ہو
صبح ِ ازل کو شب ڈھلے ، روز ِ ابد میں شام ہو
کرب ِ ملال ِ گاہ گاہ ، کیوں نہ بڑھائیں رسم و راہ
آخر ِ کار کب تلک صرف دعا سلام ہو
کون سی اُجرتِ وصال ؟اب کہاں روزگار ِ عشق؟
یوں ہی نکل پڑا ہوں مَیں ، جیسے مجھے بھی کام ہو
حبس ِ مکان ِ ذات میں روزن ِ چشم کیا کرے؟
در ہی نہیں تو کس لیے زحمت ِ فرش و بام ہو
ٹھیک ہے مَیں اداس ہوں اور بہت اداس ہوں
یہ تو بس ایک بات ہے ، بات پہ کیا کلام ہو
اور نہیں تو کم سے کم ، ایک شناخت ہی سہی
مجھ کو کبھی پکارئیے ، میرا بھی کوئی نام ہو
جائے نما ز ہجر پر ، بیٹھا رہوں میں عمر بھر
نیت ِ دل سے پیشتر ، رکعت ِ جاں تمام ہو
شاید اِسی طرح کہیں میرا سراغ مل سکے
نیند کا اہتمام ہو ، خواب کا انتظام ہو
مصرع ءِ زندگی ہے اور بحر پہ دسترس نہیں
جانے سعیؔد کس طرح شعر کا اختتام ہو

غزل ۔ علی اصغر عباس

علی اصغر عباس
دل کی جو واردات سرکتی چلی گئی
دوش ِہوا پہ بات سرکتی چلی گئی
لرزیدہ ہونٹ لغزش دوراں بنے رہے
اک چشم ِالتفات سرکتی چلی گئی
کتنا تپیدہ خیز تھا وہ دشت اِنتظار
زیر زمین دھات سرکتی چلی گئی
الجھا تھا آسمان سے دست ِگماں طراز
پھر لوح ِممکنات سرکتی چلی گئی
پہلو بدل کے دیکھنے والا یہ کون تھا
جس کی یہ ایک جھات سرکتی چلی گئی
سرکش ہوا تھا موسم باراں کو دیکھ کر
سورج کی شہہ پہ مات سرکتی چلی گئی
اصغر جو اس نے دھوپ کو آنکھیں ادھار دیں
وہ آئینہ صفات سرکتی چلی گئی

منگل، 11 فروری، 2014

حلقہ ارباب ذوق کا ہفتہ وار خصوصی اجلاس،جمیل احمد عدیل کا افسانہ،مرزا عباس کی غزلیں، 2014کو مجید امجد کے حوالے سے،، مجید امجد صدی،، قرار دینے کی قرارداد،ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کا مطالبہ

 حلقہ ارباب ذوق لاہور کا ہفتہ وار خصوصی جلاس پاک ٹی ہاؤس میں باقی احمد پوری کی صدارت میں منعقد ہوا۔ سیکرٹری حلقہ ڈاکٹر غافر شہزاد نے گذشتہ اجلاس کی کاروائی توثیق کیلئے پیش کی۔ہفتہ وار اجلاس میں جمیل احمد عدیل نے افسانہ ”ابا بیلوں کا انتظار کرنے والے“ جب کہ محمد عباس مرزا نے اپنی غزلیں تنقید کے کئے پیش کیں۔

اتوار، 9 فروری، 2014

نقاد کا ناروا رویہ ،یعقوب تصور کی شاعری

ادب میں نقاد کا کردار ایسے باپ کا ہوتا ہے جوکھانا کو سونے کا نوالہ دیتا ہے لیکن دیکھتا شیر کی نگاہ سے ہے،پاکستان میں
تو ہم یہی دیکھتے آئے ہیں یہاں ادب میں ایسا ہی ہوتا ہے۔نقاد کی تنقید پر اگر کوئی رائے زنی کرتا ہے تو نقاد اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔اپنے ظفر اقبال ہی کو لے لیجئے،شاعری کرتے ہیں،کالم لکھتے ہیں،اپنے تیئں سب کے لتے لیتے ہیں حتی کہ انہوں نے غالب کو بھی نہیں چھوڑا،اپنے نکتہِ نظر سے ان کی شاعری میں بھی فنی نقائص نکال لئیے۔یہ خیر ان کا ایک پہلو ہے دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ فنی اعتبار سے جو چیز انہیں پسند آ جائے تو تعریف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے خاص طور پر نوجوان نسل کو ان کی تربیت

جمعہ، 7 فروری، 2014

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر میں شفقت تنویر مرزا اور منو بھائی کی سالگرہ کی تقریب

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر میں شفقت تنویر مرزا اور منو بھائی کی سالگرہ کے موقع پر شفقت تنویر مرزا کی کتاب  ۔ پنجاب لوک ریت ۔۔ کی تقریبِ رونمائی ہوئی۔آئی اے رحمان،حسین حقانی،شفقت تنویر مرزا کی اہلیہ تمکین آرا اور منو بھائی تقریب کے مہمانان گرامی تھے۔اس موقع پر شفقت تنویر مرزا کو خراج پیش کیا گیا اور سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔

غزل ۔۔۔۔۔۔ محمد مختار علی(جدہ)

یُوں بَزم میں سُخن پہ ہے تالا پڑا ہوا
جیسے ہر اِک زباں پہ ہو چھالا پڑا ہوا
آنکھیں بجھی ہوئ ہیں مگر دِل ہے نُور بار!
ہر اِک چراغ میں ہے اُجالا پڑا ہوا!
قِسمت میں اپنی موسمِ ہجرت ہے اِن دِنوں
کیا کیا ہے دھوپ میں گلِ لالہ پڑا ہوا!
ہر آنکھ کو پتہ ہے کہ رونا ہے کس طرح
ہر شخص کا غموں سے ہے پَالا پڑا ہوا!
سنگِ سفید ہوں مرے ظاہر پہ تم نہ جاؤ!
آدم کے لمس سے ہوں میں کالا پڑا ہوا
مختاؔر کاروبارِ سُخن کیا کرے کوئی؟
بازارِ شوق ہے تہہ و بالا پڑا ہوا!

جمعرات، 6 فروری، 2014

غزل ۔۔۔۔۔۔۔ ۔حمیدہ شاہین

ہاتھ میں کاسہ ، کلائی میں کڑا سجتا ہے 
در بڑا ہو تو سوالی بھی کھڑا سجتا ہے
میں ترے کنجِ تغافل سے نکلتی کیسے 
میرا ساماں اِسی کونے میں پڑا سجتا ہے 
دل پہ سامانِ زمانہ کبھی رکّھا ہی نہیں 
اس گھڑونجی پہ محّبت کا گھڑا سجتا ہے
یہ الگ بات ،وہ دیوار میں خود ہوں لیکن 
عشق دیوار گِرانے پہ اَڑا سجتا ہے
یہ صفِ دل زدگاں ہے تجھے احساس رہے
تو یہاں صرف مِرے ساتھ کھڑا سجتا ہے
سَر کیے جاؤں تِرا کوہِ رفاقت یوں ہی
میرا جھنڈا اِسی چوٹی پہ گڑا سجتا ہے
طاقِ محرابِ وفا میں ہے ٹھکانہ میرا
جو دیا بجھ نہ سکے اِس میں بڑا سجتا ہے
قیمت و قدر بڑھاتے ہیں یہ رشتے ناطے
لعل دستار یا زیور میں جڑا سجتا ہے

افضال نوید کی غزل


اپنے ہی تلے آئی زمینوں سے نِکل کر
آجاتا ہُوں شاخوں پہ دفینوں سے نِکل کر
دروازے تھے کُچھ اور بھی دروازے کے پیچھے
برسوں پہ گئی بات مہینوں سے نِکل کر
سو جاتی ہے بستی تو مکاں پچھلی گلی میں
تنہا کھڑا رہتا ہے مکینوں سے نِکل کر
ایسی کوئی آسان ہے دیوانگی یارو
آئی بھی تو آئے گی قرینوں سے نِکل کر
مُدّت سے مِرے راستے میں آیا ہُوا ہے
پتّھر سا کوئی تیرے نگینوں سے نِکل کر
آجاتے ہیں ساحِل پہ دِکھانے ہمیں مُنہ لوگ
تاریکی میں ڈُوبے ہُوئے زِینوں سے نِکل کر
کس صبحِ تماشا کا بچایا ہُوا سجدہ
رخ پر چلا آتا ہے جبینوں سے نِکل کر
وہ اور کوئی ابر ہے جو کھُلتا نہیں ہے
سر پر جو کھڑا رہتا ہے سینوں سے نِکل کر
اِک روز جو دیوار تھی وہ ہم نے گِرادی
پانی میں چلے آئے سفینوں سے نِکل کر
دُنیا کو پروئے گا نوید ایک لڑی میں
آئے گا کوئی خاک نشینوں سے نِکل کر

نعتِ رسولِ مقبولﷺ

پھر رہا ہوں یوں بھی اترایا ہوا
مدحِ آقاﷺ میرا سرمایا ہوا
نعت بھی اک شکل ہے اُس لطف کی
لطف بھی خاص اُنﷺ کا فرمایا ہوا
وہ رفیقِ غار تھا کیا خوش نصیب
تا ابد جو اُن ﷺ کا ہمسایا ہوا
آپﷺ کے دم سے جہاں میں روشنی
نور ہے اک چار سو چھایا ہوا
محوِ گریہ میں نہیں ہوں بے سبب
نام ہے وہ دھیان میں آیا ہوا
حاصلِ عمرِ رواں اک خواب ہے
خواب جس میں نور تھا آیا ہوا
لکھ رہا ہوں مدحتِ اُمّی لقب
علم لرزاں ، عشق گھبرایا ہوا

متحدہ عرب امارات میں معروف شاعرہ ثروت زہرہ کی کتاب کی تقریبِ پذیرائی

متحدہ عرب امارات میں معروف شاعرہ ثروت زہرہ کی کتاب کی تقریبِ پذیرائی کے موقع پر لی گئی ایک تصویر

غزل ۔۔ محمد مختار علی (جدہ)

 

راشدہ ماہین ملک کی غزل


راشدہ روٹھی ہوئی رُت کو منانے کے لیے
چاند پھر جھیل میں اترا ہےنہانے کے لیے
پھر سے برسات کے موسم نے قیامت کر دی
دل ہے بیتاب ترے قرب کو پانے کے لیے
روز دریا کے کنارے پہ چلی جاتی ہوں
پانیوں پر میں ترا نقش بنانے کے لیے
نرم یادوں بھرے کچھ عکس سمیٹے میں نے
اور کچھ پھول چنے ٓایینہ خانے کے لیے
کتنے نادیدہ زمانوں سے گزرنا ہےابھی
کوزہ گر ٓانکھ میں اسکی مجھے آنے کے لیے
میری ٓانکھوںکو پڑھے وہ بھی تو ماہین ملک
کاش کچھ رنگ محبت کے چرانے کے لیے

مجید امجد کو سمجھنے کے لیے،مظہرفریدی


      اردوزبان وادب میں تین شعراءایسے ہیں ,جواپنی مثال آپ ہیں،میرتقی میرؔ، میرزااسداللہ خاں غالبؔ اور علامہ محمد
اقبالؒ۔ اب اس میں ایک اور نام مجیدامجدکے کا اضافہ ہوچکا ہے۔میرتقی میرخدائے سخن کہلائے، غالب کواپنے دورمیں وہ پذیرا ئی نہیں ملی جس کےوہ حق دارتھے۔محمدحسین آزادحق شاگردی ( ذوق) ادا کرنے کی پاداش میں خود نامعتبر ٹھہرا (کیوں کہ عظیم تخلیق کارکے فن کے خلاف لکھنااپنی ذات اور شخصیت کو داؤ پرلگانے کے مترادف ہوتاہے)۔
علامہ اقبالؒ خوش نصیب ہیں کہ انہیں زندگی میں اعتباراورمقام ملا۔ مجیدامجدکے ساتھ غالب والامعاملہ درپیش

رہاہے۔ مجیدامجدکوبھی زندگی میں وہ مقام نہیں مل سکا۔جس کے وہ حق دار تھے ۔ اگرچہ حالات وواقعات کی نوعیت قطعاً مختلف ہے۔ مجیدامجدبے نشاں ، پابہ گل،نہ رفعتِ مقام،  نہ شہرتِ دوام، لیکن لوح دل!لوح دل! کہنے والا گوشہ نشیں شاعرہے۔


 جدیدشاعری میں تین شاعروں کے نام چھائے رہے۔فیض،راشد اورمیراجی۔ لیکن اب ایک نام اوربھی ان کے ساتھ لیاجانے لگاہے،وہ مجیدامجدکا نام ہے۔ اگرچہ ادب سے وابستگی اور پسندکا معاملہ ذاتی نوعیت کا ہوتاہے۔لیکن یہ پسندیدگی ذاتی ہونے کے علاوہ جدید ذرائع ابلاغ اور تعلقات کی مرہونِ منت بھی ہوتی ہے۔اگرچہ تادیربرقرارنہیں رہتی۔
   

بدھ، 5 فروری، 2014

اے قوم۔۔۔ مجید امجد

پھولوں میں سانس لے کے برستے بموں میں جی،
اب اپنی زندگی کے مقدس غموں میں جی،
وہ مائیں، جن کے لال لہو میں نہا گئے،
صدیوں اب ان کے  آنسوؤں،اکھڑے د موں میں جی
جب تک نہ تیری فتح کی فجریں طلوع ہوں 
بارود سے اٹی ہوئی ان شبنموں میں جی
ان آبناؤں سے ابھر،ان ساحلوں پہ لڑ،
ان جنگلوں میں جاگ اور ان دمدموں میں جی
پیڑوں سے مورچے میں جو تجھ کو سنائی دیں 
آزاد ہم صیغروں کے ان زمزموں میں جی
بندوں کو،بیانِ غمِ دل کا اذن دے
اک آگ بن کے پوربوں میں پچھموں میں جی

منگل، 4 فروری، 2014

غزل ۔ مجید امجد

اور اب یہ کہتا ہوں، یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیئے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں، کرن ساحلوں کی اوٹ،سدا
میں موتیوں جڑی ہنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں، ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انہی سرحدوں تک ابھرتی، یہ لہر جس میں ہوں میں 
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں، شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈتا رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں 
سمے کے سم کے ثمر ہیں، میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں 
کہاں ہوں، کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اب ہے یہی ابتدا میں تھا امجد
کریم تھا، مری کوشش میں انتہا رکھتا