ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

اتوار، 27 اپریل، 2014

غزل ۔۔۔۔۔ یوسف مثالی

کسی ویران جنگل میں کسی کیکر کا سایا ہوں
اوراک چادرکی صورت اپنےکانٹوں پربچھایا ہوں
مجھے تو اپنے ہی دکھ درد سے فرصت نہیں ملتی
قسم لے لو کبھی جو بھول کر بھی مسکرایا ہوں
کسی کی آس بن جانا مری فطرت میں لکھا ہے
کوئی بادل ہوںاورسوکھےہوئےکھیتوں پہ چھایاہوں
مجھے رہنا پڑے گا عمر بھر اپنے اندھیروں میں
مرا یہ جرم ہےبجھنے سے پہلے ٹمٹمایا ہوں
جو رہ رہ کر کریدہ جا رہا ہوں زخم کی صورت
کوئی بتلائے گا میں کس کی یادوں کا بقایا ہوں
میں اپنا بوجھ کب تک اپنے کاندھوں پر لیے پھرتا
جہاں سے خود کو لایا تھا وہیں پر پھینک آیا ہوں

جمعہ، 25 اپریل، 2014

غزل ۔۔ شعیب بن عزیز

شعیب بن عزیز
ایک ذرہ بھی نہ مل پائے گا میرا مُجھ کو
زندگی تُونے کہاں لا کے بکھیرا مُجھ کو
سفر ِ شب میں تو پھر چاند کی ہمراہی ہے
کیا عجب ہوکسی جنگل میں سویرا مُجھ کو
میں کہاں نکلوں گا ماضی کو صدائیں دینے
میں کہ اب یاد نہیں نام بھی میرا مُجھ کو
شکوہ ء حال ِ سیہ گردش ِ دوراں سے نہیں
شام باقی تھی کہ جب رات نے گھیرا مُجھ کو

جمعہ، 18 اپریل، 2014

غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاشف حسین غائر

یہ شب جا رہی ہے سحر کی طرف
چلو، ہم بھی چلتے ہیں گھر کی طرف
مرا دھیان دل کی طرف یوں گیا
دُعا جیسے بابِ اثر کی طرف
قدم کیا اُٹھاتے کہ دل اُٹھ گیا
گئے پھر نہ اُس رہ گزر کی طرف
معمّہ یہ آکر کُھلا باغ میں
اِشارہ تھا وہ کس شجر کی طرف
میں اسبابِ دُنیا کو کیا دیکھتا
نظر تھی مری اُس نظر کی طرف
کُھلا، دل کا مقروض میں ہی نہیں
کہ یہ قرض ہے بیش تر کی طرف
نکل جائیں گے بادلوں کی طرح
کسی دن اِدھر سے اُدھر کی طرف

جمعرات، 17 اپریل، 2014

علی زریون کی تازہ تخلیق

علی زریون

میں نے کب تم سے کہا ،دیوتا مانو مجھ کو
میں نے کب تم سے کوئی نذرِ عقیدت چاہی
میں نے تا عمر فقط اسمِ محبّت لکّھا
میں نے چاہی بھی تو انسان کی عزّت چاہی
ہاں مِرا جرم کہ میں شہ کا نمک خوار نہیں
ہاں مجھے فخر کہ میں یار کو رب کہتا ہوں
میں قلمکار ہوں،کتّا نہیں درباروں کا
میں اندھیرے کو اجالا نہیں،شب کہتا ہوں
آل ِ دینار مجھے کچھ بھی کہے،کیا پرواہ
اہلِ دل اہلِ محبّت مجھے پہچانتے ہیں
میں تو مٹّی ہوں،محبت سے اگر کوئی ملے
سب بزرگان و جوانان مجھے جانتے ہیں
تم تو سادہ ہومگر شیخ ِ حرم سادہ نہیں
وہ جو منبر پہ عقیدوں کا لہو کرتا ہے
(اہل ِ تحقیق کے ہاتھوں پہ بھی رعشہ اترا
اہل ِ فن ہیں تو وہ مِیری میں ہی الجھے ہوئے ہیں)
اب یہاں کون ؟؟ کہ جو اس کا گریباں پکڑے
اور پوچھے کہ خُدا ہے جو تُو کرتا ہے ؟؟؟
ایسے عالم میں یہ آوازہ ء نو گوںجا ہے
یہ تو چاہیں گے یہ آواز یہیں مر جائے
یہ تو چاہیں گے کہ قائم رھے دہشت کا نظام
زھر ھو جائے فلک چاھے زمیں مر جائے
ان کے ھاتھوں سے یہاں عصمتیں لٹتی ھی رہیں
ان کے جبڑوں سے ٹپکتا رھے خوابوں کا لہو 
یہ نہ چاہیں گے یہاں سچ کا سویرا نکلے
یہ نہ چاہیں گے کہ مٹ جائے تمیزِ من و تُو
تم بھی گر ساتھ انھی کے ھو تو اے جان ِ سخن
کوئی شکوہ ہے نہ اب کوئی گِلا ہےتم سے
تا ابد میرے لئے کافی و شافی ہےوہ پل
صرف اک پل جو محبت کا ملا ہےتم سے ۔۔۔ !!
میں نے کب تم سے کہا ! دیوتا مانو مجھ کو 
میں نے کب تم سے کوئی نذرِ عقیدت چاہی ۔

قطعات ۔۔ سید صغیر احمد جعفری

سید صغیر احمد جعفری

صحراؤں میں وطن کی محبت لئے ہوئے
پیارے وطن کی پیاری ادائیں بھی ساتھ ہیں
میں سن رہا تھا دور سے آئی ہوئی صدا
برسوں کی خوشگوار صدائیں بھی ساتھ ہیں
۔۔ ۔۔
کبھی تو بھولنے والے کو بھی خبر ہوگی
کہ اہلِ ہجر پر ہر لمحہ کتنا بھاری ہے
ہم اپنے آپ سے بھی مدتوں نہ مل پائے
ترے فراق میں یوں زندگی گزاری ہے
۔۔ ۔۔
بہت ویرانیاں چھائی ہوئی ہیں
کہاں سے آندھیاں آئی ہوئی ہیں
درو دیوار کی وحشت نہ پوچھو
عجب مایوسیاں چھائی ہوئی ہیں

جمعہ، 11 اپریل، 2014

غزل ۔۔ حامد یزدانی

قفس میں اہتمام بال و پر اس نے نہیں رکھا 
کسی امکان کو پیش نظر اس نے نہیں رکھا 
جسے کہتے ہیں منزل وہ تو اک زخم مسافت ھے 
مجھے اس دشت میں گرم سفر اس نے نہیں رکھا
تو پھر کیوں میری دھڑکن کے شرارے بجھتے جاتے ہیں 
اگر یہ پاؤں میری سانس پر اس نے نہیں رکھا
میں سمجھوں گا رم سیارگاں بھی اتفاقی ھے 
بھرم میری دعاؤں کا اگر اس نے نہیں رکھا
میں بنتا جا رہا ہوں آئنوں پر رتجگے حامد 
مری پوروں میں خوابوں کا ہنر اس نے نہیں رکھا

جمعرات، 10 اپریل، 2014

غزل ۔۔ افضال نوید

نشّۂِ مَرگ سَر چڑھا ہُوا تھا
افضال نوید
بَرسَرِگوَر گھر چڑھا ہُوا تھا
سُوئے صِحرا تھی خُون کی آندھی
ایک سُولی پہ سَر چڑھا ہُوا تھا
جان لیوا تھی بادۂ تخریب
دیدۂِ چارہ گر چڑھا ہُوا تھا
پھَل مِرے صبرو اِستقامَت کا
شاخ پر بے ثمَر چڑھا ہُوا تھا
ایک طُغیانی میں گِھرا دریا
آنکھ میں رات بھر چڑھا ہُوا تھا
ماہ و انجُم جھُکے تھے بستی پر
اور میَں بام پر چڑھا ہُوا تھا
ساتھ والے مکان کا شُعلہ
کھِڑکیاں کھول کر چڑھا ہُوا تھا
اُس کے اُوپر گُلال جیسے گُلاب
حلقہ سا تا کمَر چڑھا ہُوا تھا
مَیں چکاچوند سے نہ گھبرایا
لَوہے پر آبِ زر چڑھا ہُوا تھا
جب بھی دیکھا ہے میَں نے مِنبَر پر
شخص ِنامُعتبَر چڑھا ہُوا تھا
میرا دریائے عُمر ایک طرف
شہر سے بے خبَر چڑھا ہُوا تھا
بعد مُدّت کے اُس کو ہوش آیا
اُس پہ میرا اثَر چڑھا ہُوا تھا
روزن ِ آسماں کھُلا تھا نوید
گھر کا گھر بام پر چڑھا ہُوا تھا

"مجھے کچھ دیر سونے دو " نازبٹ

ناز بٹ
"سنو جاناں  !
مجھے کچھ دیر سونا ہے !!
اور اپنی آنکھ کی پُتلی میں رقصاں تتلیوں کے لمس کو محسوس کرنا ہے
سنو جاناں !
میں آنکھیں بند کرتی ہوں
تو ان مخمور لمحوں میں
تمہارے ریشمی احساس کی اک نرم سی خوشبو
نواح ِجسم و جاں میں پھیل جاتی ہے
فضا مہمیز ہوتی ہے
اُسی ساعت ھوائے نیم شب نرمل سُروں میں گُنگناتی ہے
تمہاری یاد آتی ہے
تو میری آنکھ کی پتلی میں رقصاں تتلیاں مجھ کو ستاتی ہیں
بدن میں پھیل جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
سنو جاناں !
مجھے کچھ دیر سونے دو
وصال آثار لمحوں کا پتہ دیتی گلابی تتلیوں کے لمس کو محسوس کرنے دو
مجھے کچھ دیر سونا ہے
مجھے کچھ دیر سونے دو

اتوار، 6 اپریل، 2014

محمد سلیم طاہر کی غزل

محمد سلیم طاہر
سینہء صبر کھلے ، یاد پرانی آۓ
خشک دریا میں بڑے زور کا پانی آۓ
شوق کہتا ہے کہ دامن سےلپٹ جاؤں گا
ضبط کہتا ہے کہ آنکھوں میں نہ پانی آۓ
رت بدلنے پہ جب آئی ہے تو جی چاہتا ہے
دھوپ اس قریہءجاں میں بھی سہانی آۓ
ہم پہ الفت کے سوا کوئٰ بھی الزام نہ ہو
لاکھ کوشش پہ بھی نفرت نہ نبھانی آۓ
لفط عاجز ہیں مرا ساتھ کہاں تک دیں گے
مجھ کو بھی دل کی کوئی بات بتانی آۓ
معتبر ، سچ کی بدولت نہ ہوا میں طاہر
کاش اب جھوٹ کی، بنیاد اٹھانی آۓ