ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعرات، 29 مئی، 2014

غزل ۔۔ انور زاہدی

انور زاہدی
کُھلے دریچے ہیں کوئ نظر نہیں آتا
فلک پہ ابر ہو چھایا قمر نہیں آتا
ہوائیں تیز چلیں گھونسلے بکھرتے ہیں
پھر اس کے بعد کبھی کوئ گھر نہیں آتا
فلک سدا سے رہا ظلم پر یونہی خاموش
زمیں اُجڑتی رہی پر ثمر نہیں آتا
ترا خیال مرے دل میں دھڑکنوں کی طرح
دھڑکتا رہتا ہے لیکن نظر نہیں آتا
وہ گھر اُداس وہیں اُس کی راہ تکتا ہے
مگر وہ ایسا گیا پھر سے گھر نہیں آتا
صحیفے آسماں سے جانے کس لئے اُترے
زمیں کے لوگوں پر اس کا اثر نہیں آتا

بدھ، 28 مئی، 2014

قیصر منور کے اعزاز میں نشست

نوجوان شاعر قیصر منور کے اعزاز میں
سخنور فورم کراچی اور لائبریری کمیٹی آرٹس کونسل آف پاکستان نے اپنی چھٹی پندرہ روزہ نشست بکا اہتمام آرٹس کونسل کراچی  میں کیاجس کی صدارت معروف شاعراور نقاد سرور جاوید نے کی۔مہمان خصوصی شاعر اور صحافی خالد معین تھے۔جبکہ خوبصورت کلام کے حامل شاعر آفتاب مضطر نے مہمان اعزاز کی حیثیت سے شرکت کی۔نظامت کے فرائض عباس ممتاز ۔۔۔نے سرانجام دیئے

غزل ۔۔ افراسیاب کامل

افراسیاب کامل
پابندِ امتیازِ زمانہ نہیں ہوں میں
تہذیبِ ساختہ کا نشانہ نہیں ہوں میں
پہرے پہ میرے سانپ بٹھائے ہیں کس لیئے
اے چشمِ تاجدار خزانہ نہیں ہوں میں
گنتی کے ساتھ دے جو نوالے غریب کو
اے فکرِ روزگار زمانہ نہیں ہوں میں
جس میں کسی گماں کے اندھیروں کا راج ہو
وہ بے چراغ آئنہ خانہ نہیں ہوں میں
آنسو بتا رہے ہیں مرے دکھ کی منزلیں
کہتی ہے اس کی آنکھ فسانہ نہیں ہوں میں
آنکھوں کا فاصلہ مجھے صدیوں کا ٖفاصلہ
آنسو ہوں اور دل سے روانہ نہیں ہوں میں
تہذیب بھی فریب تمدّن بھی ہے فریب
تم،ایسے مجرموں کا ٹھکانہ نہیں ہوں میں
وہ لو ہے جو چراغ کی محتاج ہے کہیں
جگنو ہوں اور منّتِ شانہ نہیں ہوں میں

ہفتہ، 24 مئی، 2014

ایسی کلیوں سی کلائی ہے کہ سبحان اللہ ۔۔ رحمان فارس

رحمان فارس
عشق کچھ ایسی گدائی ہےکہ سبحان اللہ 
ہم نے خیرات وہ پائی ہے کہ سبحان اللہ 
پاوؑں پڑتا ہوں تو وہ ہنس کے لگاتا ہےگلے
بندگی میں وہ خدائی ہےکہ سبحان اللہ 
شام ہوتے ہی کسی بھُولےہوئے غم کی مہک
صحن میں یُوں اُتر آئی ہےکہ سبحان اللہ  
آنکھ اُٹھا کر مَیں ترے عارض و لب کیا دیکھوں
پاوؑں ہی ایسا حنائی ہےکہ سبحان اللہ 
چہرے پڑھتا ہوں ، کتابیں نہیں پڑھتا اب مَیں
یہ پڑھائی وہ پڑھائی ہے کہ سبحان اللہ  
پا بہ گِل ہوں مگر اُڑتاہوں مَیں خوشبو بن کر
قید میں ایسی رہائی ہےکہ سبحان اللہ 
اک گلِ تر سے ٹپکتی ہوئی شبنم نے مُجھے
آنکھ وہ یاد دلائی ہے کہ سبحان اللہ  
چھونے والا بھی مہکتا ہی چلا جاتا ہے 
ایسی کلیوں سی کلائی ہے کہ سبحان اللہ
سب کی آنکھوں سے بچا کر کسی شرمیلے نے
ہم سے یوں آنکھ ملائی ہے کہ سبحان اللہ 
دِل چُراتا ہےوہ کم بخت بِنا آھٹ کے 
ہاتھ میں ایسی صفائی ہے کہ سبحان اللہ
آج اِک شوخ نے صاحب ! مجھے میری ہی غزل
ایسے شرما کے سُنائی ھے کہ سبحان اللہ 
ہنستے گاتے ہوئے فارس کی اُداس آنکھوں میں 
ایسی خاموش دُھائی ہے کہ سُبحان اللہ 

پیر، 19 مئی، 2014

پرانی گُڑیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ عائشہ جاوید


میں کپڑے کی پُتلی
میرے روگ ہزاروں
میرے سنگ نہ کھیلے کوئی
میرا درد نہ سمجھے کوئی
جنم جنم کی کترن میں
جانے کس کی اترن میں
میرا کوئی نہ ماپ شمار
میں کپڑے کی پُتلی
میرے خواب بھی کپڑےجیسے
پھٹے پرانے لیرو لیر
کوئی نہ میرا سنگی ساتھی
کوئی نہ میرا سچا ویر
میں کپڑے کی پُتلی
بوسیدہ کپڑے جیسا
میلا میرا روپ سنگھار
بکھرا بکھرا میرا جیون
دھجی دھجی تن کا تھان
پھیکی پھیکی سی مسکان
میں کپڑے کی پُتلی
بے رنگی اور بے کار
ریشم سا شہزادہ میرا
بھول گیا ہے میرا پیار
اسٹور کے اک کونے میں
پھینک کے مجھ کو لے آیا ہے
نئی نویلی کانچ کی بابی
میری سوتن سرخ سہاگن
لش لش کرتی گوری نار
میں کپڑے کی پُتلی
کوئی نہ میرا پریم ٹھکانہ
میرا کوئی گھر نہ بار

جمعرات، 15 مئی، 2014

لیاقت علی عاصم کی غزل

لیاقت علی عاصم

جانے کس زخم کی نسبت سے مجھے دیکھتا ہے
وہ غزال آج بھی وحشت سے مجھے دیکھتا ہے
میرے چہرے میں کسی اور کا چہرا تو نہیں
جانے وہ کس کی رعایت سے مجھے دیکھتا ہے
بعض اوقات میں تصویر سا ہو جاتا ہوں
بعض اوقات وہ حسرت سے مجھے دیکھتا ہے
آنکھ چُپ ہے کہ نظارا ہے بدل سکتا ہے
دل کو یہ ضد وہ محبت سے مجھے دیکھتا ہے
چاند تو چھوڑ گیا ہے مجھے عاصم لیکن
آسماں اب بھی اُسی چھت سے مجھے دیکھتا ہے

منگل، 13 مئی، 2014

رحمٰن فارس کی ایک غزل

عشق سچا ہےتو کیوں ڈرتے جھجکتے جاویں
آگ میں بھی وہ بُلائے تو لپکتے جاویں 
کیا ہی اچھاہو کہ گِریہ بھی چلے ، سجدہ بھی
میرے آنسو ترے پیروں پہ ٹپکتے جاویں 
تُو تو نعمت ہے سو شُکرانہ یہی ہےتیرا
پلکیں جھپکائے بنا ہم تجھے تکتے جاویں
دم ہی لینے نہیں دیتے ہیں خدوخال ترے
دم بہ دم اور ذرا اور دمکتے جاویں ۔۔۔!!
توڑنے والے کسی ہاتھ کی اُمید پہ ہم
کب تلک شاخِ غمِ ہجر پہ پکتے جاویں ؟
شیرخواروں کے سے بےبس ہیں ترے عشق میں ہم
بول تو سکتے نہیں ، روتے بلکتے جاویں 
اب تو ٹھہرا ہےیہی کام ہمارا شب و روز
دُور سے دیکھیں تجھے اور بہکتے جاویں !
عشق زادوں سے گذارش ہےکہ جاری رہے عشق
بَکنے والوں کو تو بَکنا ھے ، سو بَکتے جاویں 
اُس کے رُخسار بھی شعلوں کی طرح ہیں ، یعنی
دہک اُٹھیں تو بہت دیر دہکتے جاویں 
فارس اک روز اِسی عطر سے مہکے گا وہ شخص
آپ چُپ چاپ فقط جان چھڑکتے جاویں

پیر، 5 مئی، 2014

حلقہ ارباب ذوق لاھور کی 75 ویں سال کی تقریبات کا آغاز


حلقہ ارباب ذوق لاھورکے 75 ویں سال کی تقریبات کا آغاز پاک ٹی ہاوس لاھور میں 4 مئی 2014 کے حلقہ کے اجلاس میں کر دیا گیا۔ کیک کاٹنے کے علاوہ حلقہ ارباب ذوق کی خدمات کا تذکرہ کیا گیا۔ شرکا میں ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، زاہد مسعود،ڈاکٹر اختر شمار، قائم نقوی ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر ضیا الحسن، شفیق احمد خان، زاہد حسن، ڈاکٹر غافر شہزاد سیکرٹری حلقہ، ڈاکٹر افتخار بخاری، منصور آفاق، جاوید قاسم، ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ،، فرحت عباس شاہ، آزاد مہدی، حسنین بخاری، اعجاز رضوی، کامران ناشط، انور زاہد،سلیم سہیل، جمیل احمد عدیل، ندیم بھابھہ، اور دیگر احباب نے شرکت کی۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 4 مئی، 2014

اداسی مجھے اپنی جیسی لگتی ہے ۔۔ عا ئشہ جاوید

میں اداس ہوں
تو کمرے کی دیواریں
جو کبھی ہنستی محسوس ہوتی تھیں
لگتا ہے جیسے
اپنے مدقوق زرد وجود سے
میرا مذاق اُڑا رہی ہوں
پردے ہِل ہِل کر
میری بے بسی پر خوشیاں منا رہے ہوں
چھت سے لٹکا چلتا ہُوا پنکھا
اپنا بوجھ چھت پہ ڈالے
خوشی سے جھومتا دکھائی دیتا ہے
میں اپنے کمرے میں لیٹی سوچتی ہوں
میرا بوجھ کون سہارے گا؟

جمعہ، 2 مئی، 2014

غزل ۔۔ نصیر احمد ناصر

نصیر احمد ناصر
عکس ٹوٹا ہے بارہا میرا
سنگِ خارا ہے آئنہ میرا
ساری دنیا مِری مخالف ہے
ایک بچہ ہے ہم نوا میرا
تیز بارش کا میں پرندہ ہوں
بادلوں میں ہے گھونسلا میرا
گھر میں مہماں ہوئی ہے تنہائی
بھر گیا ہے برآمدہ میرا
دو چراغوں سے رات روشن ہے
ایک تیرا ہے دوسرا میرا
اوپر اوپر سے ٹھیک لگتا ہے
زخم اندر سے ہے ہرا میرا
پوچھ لینا کسی پرندے سے
سب کو معلوم ہے پتا میرا
میری ترکیب میں ہے سچائی
کون چکّھے گا ذائقہ میرا
کونے کھدرے بھی خوب روشن ہیں
حجرہ ء ذات ہے کُھلا میرا
ہونے لگتی ہے بات جب خود سے
ٹوٹ جاتا ہے رابطہ میرا
کسی منزل کی یاد آتے ہی
چلنے لگتا ہے نقشِ پا میرا
ایک پُرکار کے سمٹتے ہی
پھیل جاتا ہے دائرہ میرا
ایک ٹھوکر سے ٹوٹ جائے گا
جسمِ فانی ہے بھربھرا میرا
تم زمینوں کو ناپتے رہنا
کائناتی ہے فاصلہ میرا
تھک کے واپس چلا گیا ناصر
عین منزل سے راستہ میرا