ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعرات، 31 جولائی، 2014

عشق ناکام تھوڑی ہوتا ہے ۔۔ مجید اختر

مجید اختر
ایک الزام تھوڑی ہوتا ہے
مفت میں نام تھوڑی ہوتا ہے
اک نظر دیکھتے ہیں آ کے تجھے
تجھ سے کچھ کام تھوڑی ہوتا ہے
وقت ہوجائے گر میسّر بھی
وقت پر کام تھوڑی ہوتا ہے
پھول ہوتے ہیں میرے ہاتھوں میں
سنگِ دُشنام تھوڑی ہوتا ہے
یونہی بازار میں ٹہَلتے ہیں
جیب میں دام تھوڑی ہوتا ہے
جُبّہ سائی حرم کی کرتا ہوں
عزمِ دمّام تھوڑی ہوتا ہے
یہ جو اظہار تم سے کرتا ہوں
برسرِ عام تھوڑی ہوتا ہے
یہ سراسر ہے کارِ رسوائی  
عشق میں نام تھوڑی ہوتا ہے
یوں ہر اک در پہ سر نہیں جھکتا
سب کا اکرام تھوڑی ہوتا ہے
وقت مِلنے پہ کر لیا جائے
عشق آرام تھوڑی ہوتا ہے
سَر بھی کٹتے ہیں بے سبب اب تو
سر پہ انعام تھوڑی ہوتا ہے
مست رکھتی ہے بس ولاے حبیب
ہاتھ میں جام تھوڑی ہوتا ہے
لوگ ناکام ہوں تو ہوں' اختر
عشق ناکام تھوڑی ہوتا ہے

پیر، 28 جولائی، 2014

راجا مہدی علی خاں کی آج برسی ہے،فہمیدہ ریاض،طلعت انور جاوید ہاشمی کو جنم دن مبارک،حلقہ ء ارباب ذوق کراچی کا نعتیہ مشاعرہ

(رپورٹ: سیدانورجاویدہاشمی)
جھمکا گرا رے بریلی کے بجار میں اور بے شمار یادگار فلمی نغمات لکھنے والے راجا مہدی علی خاں کی آج برسی ہےطنزومزاح کے معروف شاعر،فلمی گیت نگار راجا مہدی علی خاں جنھوں نے 70 کے قریب فلمی نغمات لکھے 
اور اُن کی گیت نگاری کی ایسی دھاک بیٹھی کہ جس فلم میں راجہ صاحب کے گانے ہوتے وہ سُپر ہٹ ہوتی۔ اپنے زمانے کے مشہورومعروف گلوکار اُن کے گیتوں اور پس منظر کے لیے گائے گئے نغمات اپنی آواز میں ریکارڈ کروانے کو باعث افتخار سمجھتے تھے۔ للیتا دولکر نے فلم ودیا میں آج میرادل کسی پہ آگیا ،محمد رفیع شہنشاہ جذبات نے میرا سایا فلم کے لیے آپ کے پہلو میں آکر رودیے؛ لتامنگیشکر نے وہ کون تھی کے لیے آپ کیوں روئے؛آشابھوسلے اور رفیع نے فلم اک مسافراک حسینہ کے لیے آپ یوں ہی اگرہم سے ملتے رہے؛لتا نے فلم ان پڑھ کے لیے آپ کی نجروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے؛ پرچھائیاں کے لیے اگر مجھ سے محبت ہےشمشاد بیگم،مہندرکپور،طلعت محمود،مکیش؛کشورکمار گیتادت، اور سادھنا سرگم کے گائے ہوئے راجا صاحب کے گیتوں نے دھوم مچادی تھی۔ رفیع اور لتا و شمشاد نے زیادہ تر انہی کے گیت گائے۔ ان کی ایک نظم چہلم نامہ بھی بہت مشہور ہوئی :
بہت خوب صورت بہت نیک تھا وہ
ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
رضیہ ذرا گرم چا ول تو لا نا
ذرا قورمہ اس طرف تو بڑھانا
اری بوٹیاں تین سالن میں تیرے 
یہ چھچڑا لکھا تھا مقدّر میں میرے!...
پاکستان میں ڈاکٹروزیر آغا سے اُن کی گاڑھی چھنتی تھی آغا صاحب نے بمبئی کی فلم نگری میں راجا صاحب سے ملاقات کی تو اُن کا سراپا اور پان کھاتے ہوے مسکرانے توند سے پیٹ لڑانے کے واقعات ہی نہیں لکھے بلکہ اپنے ڈاکٹریٹ کا موضوع بھی اردو ادب میں طنزومزاح اس دوستی کو نبھانے کے لیے منتخب کیا۔ ۲۷جولائی1966 کو فلمی دنیا کے شائقین کو یادگار گیت اور مزاحیہ نظمیں دیتے ،قہقہے برساتے راجا مہدی علی خاں نے دنیاے فانی کو خیرباد کہا/
ستائیس 27جولائی 1990ء کو معروف شاعر و محقق سید تعظیم علی شایاں بریلوی کا انتقال ہوا تھا اُن کا تذکرہ تاریخ شعراے روہیل کھنڈ چار جلدوں میں شایع ہوا تھا ہم نے اُردو لغت بورڈ میں اس کی جلدیں دیکھی ہیں۔
اسی تاریخ کو 2002ء میں شرف سیمابی نامی شاعر اور کولکتہ بھارت کے اہل قلم مولوی محبت اللہ خاں کا 2006ء میں انتقال
ہوا تھا
 پروفیسرڈاکٹرمحمد ایوب قادری محقق،استاد اردو کالج کراچی،مولف یاران رفتہ 1926میں پیداہوے تھے ۔ جب کہ افسانہ نگار نعیم آروی کا انتقال 2002ء میں 28جولائی کو ہوا تھا جن کا تعلق روزنامہ مشرق،ہفت روزہ الفتح سے بطور صحافی رہا۔ ان کے افسانوں کے مجموعے 'سوا نیزے کا سورج' بستی کا آخری آدمی ہمارے بک شیلف میں موجود ہیں
اُن کا کراچی کے فسادات پر ایک افسانہ گودھرا کیمپ عالمی انتخاب میں شامل رہا
۔پروردگار مرحومین کی مغفرت کاملہ فرمائیں۔آمین

جنم دن
8 جولائی 1946ء کو محترمہ فہمیدہ ریاض اور 1956ء میں طلعت انورجاوید ہاشمی پیداہوئی تھیں دونوں کو جنم دن پر نیک تمنائوں کے ساتھ سال گرہ کی مبارک باد۔۔۔
حلقہ ء ارباب ذوق کراچی کا نعتیہ مشاعرہ
اتوار27جولائی کی شام حلقہ ء ارباب ذوق کراچی کا نعتیہ مشاعرہ جناب یامین اختر کی زیرصدارت منعقد کیا گیا۔ظہیر عباس نے گزشتہ ہفتے یوم شہادت علی مرتضیٰ کے حوالے سے نشست میں پیش کیے گئے مناقب کے اقتباسات اور روداد پیش کی صدر محفل نے دستخط ثبت کرکے تائید کی۔ اوکاڑہ سے آئی ہوئی مہمان شاعرہ سیدّہ شبانہ زیدی ماہرتعلیم،ادیب و سینئر وائس پریسیڈنٹ اوکاڑہ روش انٹرنیشنل اور اُن کے بھائی سید ظفرسلیم زیدی بھی نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوے۔ ظہیر عباس،پیرزادہ سلمان [سید مقبول حسین اور جمال احسانی کی نعتیں سنائیں]حنیف عمر،فرحان حیدرنقوی،توقیر تقی،سید انورجاویدہاشمی،فراست رضوی،عقیل عباس جعفری،سیدّہ معصومہ شیرازی اور یامین اختر نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنے گل ہاے عقیدت پیش کیے۔ حاضرین کے لیے افطار کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
 

ہفتہ، 26 جولائی، 2014

آج خدیجہ مستور اور ابنِ صفی کی برسی ہے

یادِ رفتگان
(رپورٹ : سید انور جاوید ہاشمی)

خدیجہ مستور
آنگن ' کی ناول نگار خدیجہ مستور بیگم ظہیر بابر کی برسی کی تاریخ ہے۔ ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کا نام قیام پاکستان کے بعد نقوش کے حوالے سے بھی گونجا اور ان لکھنے والی بہنوں کی افسانہ طرازیوں نے بھی پاکستانی ادب میں دھوم مچارکھی تھی۔یہ لکھنئو سے لاہور آئیں تو احمد ندیم قاسمی صاحب نے ان کو اپنی بہنوں کی طرح رکھّا اور جب محمد طفیل نے نقوش کا آغازکیا تو دس شماروں تک یہ تینوں مجلس ادارت میں شریک کار بھی رہے۔
ابنِ صفی
اسرار ناروی،اسراراحمد ابن صفی کی تاریخ ولادت اور وفات  سےبھی ہمیں ۲۶ جولائِی یاد رہتی ہے۔ابن صفی کی مداحی میں تاریخ ادب اردو کے محقق،سابق شیخ الجامعہ کراچی،معروف دانشور ڈاکٹرجمیل جالبی نے کہا کہ '' جاسوسی ناول بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ دوسرا ادب۔ابن صفی واحد جاسوسی ناول نگار تھے جن پر یہ فن شروع ہوکر انہی پر ختم ہوگیا تھا۔ان سے میری ایک ملاقات بھی ہوئی تھی۔میرے چھوٹے بیٹے کو جنون کی حد تک ابن صفی کو پڑھنے کا شوق تھا۔میں نے ابن صفی کو پڑھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ راشداشرف جیسے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔وہ ہمارے مستقبل کا حال ہیں اور ہمارا حال ماضی بن جائے گا۔" ابن ِصفی شخصیت اور فن" کی اشاعت پر میں راشد اشرف کو مبارک باد دیتا ہوں۔بیک کور کتاب ابن صفی شخصیت اور فن از راشد اشرف ناشر بزم تخلیق ادب پاکستان[سید معراج جامی]کراچی پاکستان۔21اپریل 2013ء کے سنڈے میگزین میں اسی کتاب پر اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے شفیع عقیل نے لکھا:'' اُردو میں جاسوسی اور پراسرار کہانیاں اور ناول لکھنے والے ادیب و شاعر ابن صفی کی کتابوں کو دیکھا جائے،تو آدی اور بھی حیرت میں پڑجاتا ہے کہ تیرتھ رام فیروزپوری کے مقابلے میں اُس نے ترجمہ نہیں بلکہ جو ناول اور کہانیاں تحریر کی ہیں،کسی ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔اس کی تصنیفات کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ اس نے "جاسوسی دنیا' کے عنوان کے تحت جو ناول تحریر کیے ہیں ان کی تعداد ایک سو چھبیس126  ہے۔اسی طرح 'عمران سیریز' میں جو ناول تحریر کیے ہیں وہ ایک سو سولہ 116 ہیں اس کے علاوہ متفرق ناول بھی ہیں اور کہانیوں کے مجموعے بھی ہیں۔طنزومزاح پر مبنی تحریریں بھی ہیں،مضامین کی کتابیں بھی ہیں اور شعری مجموعہ بھی ہے[شفیع عقیل نے لکھا کہ یہ معلومات اُںھوں نے راشد اشرف کی کتاب سے حاصل کی ہیں۔احمد صفی فرزند ابن صفی اور ام کاشان نے 25اور 26جولائی کی درمیان شب ان کی وفات بیان کی ہے۔اللہ ربّ العزت ہمارے رفتگاں کی کامل مغفرت فرمائیں ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا جانتے ہیں

لیاقت علی عاصم کا نیا مجموعہ ،، نیشِ عشق،، شائع ہوگیا


دبستان ساھیوال کی آبرو الف دال نسیم کی آج برسی ہے اس موقع پر ڈاکٹر سعادت سعید(فرزند) کی تحریر


جمعہ، 25 جولائی، 2014

شریک ہوتا نہیں ہے حسن بھی مشقِ سخن میں مزاج ۔۔ اعجاز گل

اعجاز گل
تعلق      اس       کا         اپنا         درمیانہ     چل   رہا   ہے
کہ     آنے     میں     نہ    آنے    کا       بہانہ     چل   رہا   ہے
طوالت    کھنچ    رہی    ہے    آمد   و    رفتِ    نفس    کی
قیامِ      مختصر       کا       آب     و      دانہ     چل   رہا   ہے
کیا    ظاہر    نہیں    خود    کو    ابھی     پردہ    نشیں    نے                         تعارف       ہر       کسی       کا        غائبانہ     چل   رہا   ہے
بہت     اغلاط     سے    اپنی    مَیں    پسپا    ہو    رہا   ہوں
         کئی      اسباب       سے       آگے      زمانہ     چل   رہا   ہے
دروں   کیا   ہے    مخالف    کے   نہیں    ملتی    خبر   کچھ 
بظاہر    سب    کا   سب    سے   دوستانہ     چل   رہا   ہے
وہی   ہے     کام    ہونے    میں    نہ     ہونے    کی   رکاوٹ
کوئی      لاحاصلی        کا        شاخسانہ     چل   رہا   ہے
ابھی    تحریر    سے    اپنی    وہ     ہے    نا مطمئن     سا
مجھے    کاتب     کا     لکھنا     اور     مٹانا     چل   رہا   ہے
نہیں     کھلتا    جدا    ہوتا      ہے      بعدِ     شام     کیونکر
جو   سایہ    دھوپ    میں   شانہ    بشانہ     چل   رہا   ہے
شریک   ہوتا  نہیں   ہے  حسن  بھی   مشقِ  سخن   میں  مزاج
       اپنا      ہھی       ردِّ       عاشقانہ     چل   رہا   ہے
عجوبہ   نقش   ہیں    یا   دھات    ہے    نایاب    اس    کی
نئے        بازار        میں        سکّہ       پرانا     چل   رہا   ہے

جمعرات، 24 جولائی، 2014

جہاں سجدہ کناں تھے خود محمد ۔۔ نیلما ناھید درانی

نیلما ناھید درانی
چمکتا اک نگینہ دیکھ آئے
جہاں بھر کا خزینہ دیکھ آئے
زھے قسمت بلایا تھاہمیں بھی
محمد کا مدینہ دیکھ آئے
کہا لبیک تو وہ سامنے تھے
بلانے کا قرینہ دیکھ آئے
جہاں سجدہ کناں تھے خود محمد
اسی دھرتی کا سینہ دیکھ آئے
فرشتے بھی تھے مصروفِ عبادت
شفاعت کا سفینہ دیکھ آئے

پیر، 21 جولائی، 2014

معیار۔ماجدصدیقی

ماجد صدیقی
ماجددیکھ مری ماں
باپ کی شفقت سے محروم‘ترابچّہ میں
تیرے لاڈ سے بگڑا بچّہ
جو کچھ کھاؤں‘جو کچھ پہنوں
وہ سارا کچھ ُ
اب میری اِک کمزوری ہے
اُس کھاجے‘اس پہناوے کو
تُو نے جو معیار دیا ہے 
اُس معیار سے میں اب نیچے آ نہیں سکتا
تُو چاہے چکّی پِیسے یا چرخہ کاتے
لوگوں کے برتن مانجھے
یاخاک اُڑائے
یا خیرات اور قرض کے سکّے
اپنے کھیسے میں بھرلائے
مرے لباس کُی شکن شکن ابھری ہی رہے گی
تیرا ماتھا چاہے شکن شکن ہو جائے

بے ہو ش تھے سو لکھ د یا ا حو ا ل د ر د کا .. سید انور جاوید ہاشمی

یو ں بے و فا ئی پر نہیں د یتے ہیں د و ش ہم
خُو د ہی ہو ے تھے آ پ کے حلقہ بہ گوش ہم
بے ہو ش تھے سو لکھ د یا ا حو ا ل د ر د کا
ملتا کسی دُ کا ں پہ تو لے آ تے ہو ش ہم
لکھتے ر ہیں گے تا نہ لہو خشک تن میں ہو
تھمنے نہ د یں گے اپنی نو ا ے سر و ش ہم
کیا میر و د ا غ و آ تش و نا سخ کے بعد بھی
آ ر ا ستہ غز ل سے کر یں گر د پو ش ہم
کیا کیا نہ خلق تُہمتیں ہم پر لگا ئے گی
محفل میں بیٹھ کر بھی رہیں گے خمو ش ہم

انجمن بہار،ادب کی محفلِ مناقبہ،ماجد خلیل نے صدارت جبکہ لیاقت علی عاصم مہمانِ خصوصی تھے

(رپورٹ : سید انور جاوید ہاشمی)
انجمن بہار ادب کے زیرِاہتمام آج ۲۱رمضان یوم شہادت خلیفہ ء چہارم سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے محفل مناقبہ محترم ماجد خلیل کی زیرصدارت منعقد کی گئی جس کے مہمان خصوصی لیاقت علی عاصم،مہمان اعزازی خلیل احمد خلیل ایڈوکیٹ شاعر جہاد سخن تھے۔خرم آسی نے تلاوت کلام پاک اور نورسہارنپوری نے نذرانہ نعت کی سعادت حاصل کی۔ 
منقبت پیش کرنےکی سعاوت حاصل کرنے والوں میں 

لاھورسے آئے ہوے مہمان شاعر عارف منصور،قمروارثی،سیدانورجاویدہاشمی،جمال احمد جمال، اخترانجم خرم آسی جہانگیری ،امتیازالملک آسی سلطانی،میم۔میم-مغل،صفدرعلی خان،سید زاہد علی اخلاق درپن،عدنان عکس،شارق رشید ، صدیق راز ،میزبان محفل پروفیسر عبدالصمد نورسہارن پوری اور ناظم مناقبہ حامد علی سیدتھے جب کہ ضمیر احمد ضمیر،وقارزیدی،ریحان احمد شیخ،اسراراحد،وکیل احمداورفیاض علی سامعین کے طور پر شریک رہے۔
انجمن بہار ادب کا ماہانہ مشاعرہ ہر ماہ کے تیسرے اتوار کو گزشتہ پچاس برس سے تواتر سے جاری ہے فروری میں بہارکوٹی کی برسی پر سالانہ مشاعرہ اور مجلے کی 
اشاعت بھی کی گئی۔
افطاراورطعام سے قبل میزبان کی والدہ اور سجاد ہاشمی کے بیٹے سعد ہاشمی کے لیے جو دارالصحت میں زیرعلاج ہیں خصوصی دعا کی گئی۔ خلیل احمد خلیل،مظہر ہانی اور دیگر صاحبان نے فون پر بھی سجاد ہاشمی سے اُن کے بیٹے کی خیریت دریافت کی جب کہ سیدانورجاویدہاشمی اپنی اہلیہ کے ساتھ اسپتال گئے اور تیمارداری کی اس اثناء میں ڈاکٹر صوفیہ اور سید فرخ ہاشمی سے بھی ہماری بات چیت ہوئی۔

انجمن بہار ادب کا ماہانہ مشاعرہ ہر ماہ کے تیسرے اتوار کو گزشتہ پچاس برس سے تواتر سے جاری ہے فروری میں بہارکوٹی کی برسی پر سالانہ مشاعرہ اور مجلے کی 
اشاعت بھی کی گئی۔کراچی۔

اتوار، 20 جولائی، 2014

حمد تو فیق سے نہ گر ہو تی ہاشمی کو گُرو نہ کہتا کو ئی ۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

سید انور جاوید ہاشمی
آ پ ہی کہتا تُو نہ کہتا کو ئی
و ہ نہ ہو تا تو ھُو نہ کہتا کوئی
نیّت - بند گی نہ ہو تی ا گر
ہے و ہی رُو بہ رُو نہ کہتا کوئی
پے ر و ی کر تا گر شیا طیں کی
خُو د کو پھر نیک خُو نہ کہتا کو ئی
بیٹھ کر خا نقا ہ ہستی میں
ہے وہی چار سُو نہ کہتا کو ئی
پا ر کر کے مُنا فقت کی حد
د و ستو ں کو عد ُو نہ کہتا کو ئی
خون کا د ر یا پا ر کر جا تا
جوش میں ہے لہُو نہ کہتا کو ئی
شا کی ہو تا ا گر ہر ا ک بند ہ
اُس کو نز د- گُلو نہ کہتا کو ئی
محو ہر آ ن گر ہوُا کرتا
پاک ہو کر وُضو نہ کہتا کو ئی
آ ن کر د ر میا ن - عبد و ر ب
و ر د کو گُفتگو نہ کہتا کو ئی
سینہ کو بی سے اُ بھرا ہوتا گر
ز خم کر د ے ر فُو نہ کہتا کو ئی
حمد تو فیق سے نہ گر ہو تی
ہاشمی کو گُرو نہ کہتا کو ئی

ہفتہ، 19 جولائی، 2014

وہ لہو جیسے سمندر میں اترتا سورج ۔۔ یاور ماجد

یاور ماجد
نام مڑ مڑ کے بھلا کس نے پکارا تھا مرا؟
کس کو اس  طرح بکھر  جانا گوارا تھا مرا؟
 نقش کس طور سے اور کس نے ابھارا تھا مرا
ہاتھ کب میرے تھے؟ بس چاک پہ گارا تھا مرا
وہ جو بپھرا سا سمندر تھا ۔۔۔ کنارہ تھا مرا
جس میں سب ڈوب گئے وہ تو نظارا تھا مرا
 دھوپ میں جلتا پرندہ مجھے یوں دیکھتا تھا
بارشوں، سایوں پہ جیسے کہ اجارا تھا مرا
 وہ لہو جیسے سمندر میں اترتا سورج
شام نے گویا کوئی عکس اتارا تھا مرا
 کسی امید کی امید ہی اک دن ہو گی
اسی امید پہ پوچھو تو گذارا تھا مرا
 پہلے ہاتھوں سے لکیریں مٹیں رفتہ رفتہ
کل جو پھر ٹوٹ گرا پل میں، ستارہ تھا مرا
 تھا نشہ سارا  زیاں میں مرا یاور ماجد
فائدہ کوئی بھی ہو، اس میں خسارہ تھا مرا

جمعہ، 18 جولائی، 2014

سنتا جاؤں اذاں مدینے میں ۔۔ سید صغیر احمد جعفری

سید صغیر احمد جعفری
چھاؤں ٹھنڈی وہا ں مدینے میں
کیونکہ ہے سائباں مدینے میں
وہ ملے عرصہِ حیات مجھے
سنتا جاؤں اذاں مدینے میں
رحمتوں کی ہوں بارشیں مجھ پر
ہو کرم سب عیاں مدینے میں
کیوں نہ ہر شے ہو مہرباں مجھ پر
ہے مرا مہرباں مدینے میں

جمعرات، 17 جولائی، 2014

صرف پروردگار کی باتیں ۔۔ رضیہ سبحان

رضیہ سبحان
آئینے کی،سنگھار کی باتیں
کیا کریں حُسنِ یار کی باتیں
وصل کا ،ہجر میں تصور ہو
اور خزاں میں بہار کی باتیں
باعثِ کرب و اضطراری ہیں
اِس دلِ بیقرار کی باتیں
تشنگی زیست کی نہ بڑھ جائے
رہنے ہی دو خُمار کی باتیں
رنگ بھر تی ہیں زرد موسم میں
عارض و چشمِ یار کی باتیں
دیدہ و دل کا در کُھلا رکھیں
پھر کریں اختیارکی باتیں
موت کے در پہ دستکیں جیسی
شامِ غم ، انتظار کی باتیں
کرگئیں اپنے آپ سے شاکی
جشنِ گل میں شرار کی باتیں
حُسن کا امتحان ہوتا ہے
عشق میں اعتبار کی باتیں
آج تو زندگی کا محور ہیں
صرف پروردگار کی باتیں

بدھ، 16 جولائی، 2014

روگ دل کو لگائے بیٹھا ہے ۔۔سید انور جاوید ہاشمی

سیدانور جاوید ہاشمی
روگ دل کو لگائے بیٹھا ہے
سامنے آئینے کے بیٹھا ہے
کوئی تجھ سا نہیں جہاں میں کیا
تو جو ایسے اکیلے بیٹھا ہے
پشت دیوار سے لگائے ہوئے
گود میں تکیے رکھے بیٹھا ہے
کل بھی بیٹھے گا کیا اسی کروٹ
آج کروٹ پہ جیسے بیٹھا ہے
دھوپ کرنوں سے غسل کرنے کو
کیسے روزن وہ کھولے بیٹھا ہے
دیدہ و دل کو فرشِ راہ کیے
آئیے !کہتے کہتے بیٹھا ہے

جمعہ، 11 جولائی، 2014

ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﺎﮎ ﺳﮯ ﺍﺭﺽ ﻭ ﺳﻤﺎ ﻧﻘﻮﯼ .. ذوالفقار نقوی

دھواں تھا چار سو اتنا کہ ہم بے انتہا روئے
چراغِ دید ہی گل تھا نہ کیوں روحِ ضیا روئے
عجب حدت مرے اطراف میں جلوہ فروزاں تھی
کہ میری خاک سے شعلے لپٹ کر بارہا روئے
کسی پتھر کے کانوں میں مری آواز یوں گونجے
کہ اس کے دل کے خانوں میں چھپا ہر اژدہا روئے
سریرِ حجتِ یزداں زمین پر اتر آیا؟
انا سر پیٹتی آئی جفاوں کے خدا روئے
مرے آغاز میں مجھ کو ہی رونا تھا سو میں رویا
نہ جانے کیوں مرے انجام پہ شاہ و گدا روئے
کریں انکار تیری خاک سے ارض و سما نقوی
عبث ہے،آنکھ بھر آئے یا تیرا نقشِ پا روئے

جمعہ، 4 جولائی، 2014

کھی تو درد بھی سینے کے پار اٹھتا تھا ۔۔ ضیا حسین ضیا

ضیا حسین ضیا
سفر میں قد کے برابر غبار اٹھتا تھا
وہ دن تھے ،ابر نہیں ،بس ،خمار اٹھتا تھا
گہے خود اپنی بھی تعظیم سے ہوئَے بیزار
گپے ہمارے لئے ہر مزار اٹھتا تھا
چراغ طاق نہیں ، سلوٹوں کی زنیت تھا
میں اپنی نیند سے جب شعلہ وار اٹھتا تھا
سمٹ کے ہم ترے سینے میں ہو گئے جمع
جو تیری موج سی بانہوں کا پیار اٹھتا تھا
کبھی تو جمع_ محبت کی یہ بھی شکل ہوئِی
مسیحا پوچھتا تھا ، انتشار اٹھتا تھا ؟
کبھی کلیجے پہ اک پھانس بھی صلیب رہی
کھی تو درد بھی سینے کے پار اٹھتا تھا
غبار پر تھا کسی اور گرد کا پہرہ
نگہ سے کب دل _ ماضی کا بار اٹھتا تھا
فلک کی ساری جوانی لٹا کے ہم لوٹے
کبھی تو ایسے بھی اک انتظار اٹھتا تھا
ہمیں تو یونہی لگا ، دل کا بیٹھنا تھا روگ 
مگر نہ جان سکے ۔ اعتبار اٹھتا تھا