ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

منگل، 30 ستمبر، 2014

میں اس گلاب کی سیرت میں ڈھل گیا خود بھی ۔۔ افراسیاب کامل

افراسیاب کامل
جو موجِ سبز تغافل شعار ہو جائے
گلاب دم بھی نہ لے اور غبار ہو جائے
میں اس گلاب کی سیرت میں ڈھل گیا خود بھی
جو میرے جسم سے لپٹے تو خار ہو جائے
نوائے بلبل و قمری ہو تیری سانسوں میں
نظر سے باغِ سحر ہمکنار ہو جائے
تمام عمر یہ قرضہ مجھے بھی یاد رہے
تمہارے جسم کا ریشم ادھار ہو جائے
نہ اور ظلم اٹھاو کہ ظلم کے پیچھے
چھپی نگاہ کو ہم سے نہ پیار ہو جائے
یہ میرےسحر کی طاقت ہے میرا دشمن بھی
خود اپنے وہم کا خود ہی شکار ہو جائے
کئی چراغ شگافوں سے منہ اٹھانے لگیں
جب اس نگہ سے ہوا تار تار ہو جائے

اتوار، 28 ستمبر، 2014

مرے مزاج کا غُصہ گیا نہیں مجھ سے اٖفضل گوہر راو

افضل گوہر راو
مرے مزاج کا غُصہ گیا نہیں مجھ سے
کہ یہ الاؤ کسی دن بُجھا نہیں مجھ سے
تماشہ دیکھنے والوں سے شرمسار ہوں میں
بنا رھا تھا تماشہ بنا نہیں مجھ سے
میں تیری خاک کے سب بھید بھاؤ جانتا ہوں
یہ چاک اور یہ کوزہ نیا نہیں مجھ سے
مراقبے میں پڑی شب کو چُپ لگی ایسی
سخن کسی بھی دِیے نے کِیا نہیں مجھ سے
کچھ اتنا تیز بہاؤ تھا غم کا دل کی طرف
ھزار روکنا چاہا، رکا نہیں مجھ سے
وجودِ خاک پریشان کر رہا تھا مجھے
سو بارِ عمر زیادہ اُٹھا نہیں مجھ سے

ہفتہ، 27 ستمبر، 2014

چاند تارے مرے پہلو میں فروزاں کردے ۔۔ راجہ اسحقٰ

راجہ اسحقٰ
اس کے وعدوں کا بھرم کھلنے پہ حیراں ہوا ہوں
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پریشاں ہوا ہوں
میرے ہونے کی گواہی تو اُسی نے دی تھی
اپنے دشمن سے میں نا حق ہی گریزاں ہوا ہوں
لے گیا کوئی محبت کا خریدار مجھے
تم نے دیکھا ہے میں کس شان سے ارزاں ہوا ہوں
چاند تارے مرے پہلو میں فروزاں کردے
شہرِ خوباں میں تری رات کا مہماں ہوا ہوں
موج در موج سمندر لیے پھرتا ہے مجھے
جتنا ڈوبا ہوں میں اتنا ہی نمایاں ہوا ہوں

قمر سُلطانہ سیّد کا شعری مجموعہ ،،چاندنی،، ۔۔۔۔ تعارف نگار: سید انورجاویدہاشمی


ہم تو کہتے ہیں یہ اک خیرات ہے خورشید کی
مستقل  ا ہلِ نظر  کہتے ہیں جس کو  چا ند نی
۔۔۔۔۔۔۔

چا ند نی  قمر سُلطانہ سیّد  کا  شعری مجموعہ روباب  عبدالصمد کی کپوزنگ اور م۔م۔مغل کے بنائے سرورق کے ساتھ مشتاع  مطبوعات  کے زیر اہتمام تیار و طباعت کے مراحل سے گُزرکر سیّد احمد علی شاہ انور اکیڈمی،نارتھ ناظم آباد کراچی ناشر کی وساطت سے ہم تک پروفیسرعبدالصمدنورسہارن پوری صاحب نے پہنچایا اور فرمایا کہ ہماری اُستاد بہن [شاگرد استاد نصیر کوٹی] نے آپ کی نذر یہ مجموعہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ '' قمر سلطانہ کی شاعری اُن کے جذبات کا آ ئینہ ہے اور ان حالات کی عکاسی کرتی ہے جن کا سامنا وہ زندگی بھر کرتی رہیں نیر وہ احساسات بھی ان کے کلام کا حصّہ ہیں جن کا اثر اُن کے دل پر ہوا۔محترمہ زندگی بھر کسی نہ کسی کٹھن وقت کا سامنا کرتی رہیں وہ ایک بہادر خاتون ہیں اس لیے مشکلات اُن کا کچھ نہ بگاڑسکیں اور وہ اپنی زندگی کی ذمّہ داریاں خوش اسلوبی سے سرانجامد دیتی رہیں جب کہ شاعری میں اپنے غموں کا اظہار کرتی رہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں غمِ زندگی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔"
حیدرآباد دکن کے مقام پربھنی میں پیداہوئیں والد سیدانورعلی شاہ عمرکوٹی کے ساتھ ہجرت کرکے سندھ تھرپارکر کے مقام عمر کوٹ آگئیں 1956ء میں رشتہ ء ازدواج میں بندھنے کے بعد 1971ء میں میٹرک،1976ء میں بی اے کیا گورنمنٹ ہائی اسکول میں درس و تدریس کے ساتھ ہی ماسٹرز اردو کی ڈگری اور معلمہ کا کورس بھی کیا۔والد کا مجموعہ '' فکرِ انور' کے نام سے اور اپنا ۱۱۲ صفحات کا ' چاندنی ' شایع کرچکی ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ کچھ دیر پہلے ہماری نظر سے ان کا نام گذرا تھا ۔برادر محترم عبدالوحید تاج نے ہمیں مُقدّمہ ء سحر و شاعری [قارئین ِ ادب کی عدالت میں] جمیل نظر کی معرکۃ الآراء تحقیقی و تنقیدی کتاب عطیہ کی وہی مطالعے میں تھی جب یہ کتاب ملی ۔جمیل نظر صاحب نے اپنے دور کے کراچی کے اساتذہ اور دوسری ،تیسری نسل کے شعراء، نقاد، مبصر،مدیران،ریڈیو،ٹی وی کے شعراء کی فہرست کے ساتھ خواتین شاعرات کے اسماءے گرامی میں فاطمہ حسن سے پروین ناز تک ۲۳ شاعرات کی فہرست میں قمرسلطانہ سیّد کا نام بھی شامل کیا ہے صفحہ۴۰ مذکورہ کتاب۔ 240صفحات کے شعری مجموعے '' چاندنی ' کا انتساب شاعرہ نے اپنے والد کے نام کیا ہے[دیکھیے عکس]صفحہ ۵ تک تفصیلات  کتاب اورچھ تا ۱۱ فہرست،صفحہ ۱۲ پر کچھ اپنے بارے میں شاعرہ کے تاثرات،تراب بروھی لاڑکانوی کا سندیِ زبان میں عرض ِ حال،پروفیسر ظہیراحمدظہیر کی تقریظ صفحہ        ۲۵ تا ۲۸؛حمیدہ رحمٰن کھوکحر کے تاثرات ۲۹ تا ۳۵ اور نورسہارن پوری صاحب کا قمرسلطانہ کی شاعری کا مختصرسا تعارف صفحہ 36 تا ۳۹ شامل ہیں۔۔حمد۔نعت۔منقبت،سندھی کلام ،75 غزلیات اورقطعات،نذرانہ ء عقیدت نوری شہید،فاطمہ جناح، مسلمان،وطن کے نونہالوں کے نام قمرسلطانہ کا پیغام[معلمہ جو سندھی زبان کی تدریس کرتی رہی ہیں]بابائے پٹھان جسٹس سردار عبدالجبار خان کے انتقال پر احساسات،داستانِ ستم،زلزلہ،قومی ترانہ،ہدیہ ء تہنیت دعائیہ،رشتے داروں کے نام،بیٹے اکبر نعیم کے لیے قطعہ،والدہ کے انتقال پر نوحہ،آخر میں والدین کی یادنگاری پر
مشتمل قمر سلطانہ سیّد کے مجموعے '' چاندنی '' کی قیمت 350/=روپے ملنے کا پتاکولمبیا اپارٹمنٹ فلیٹ نمبر بی 13تھرڈفلور،ایس سی ۹،بلاک این نارتھ ناظم آباد کراچی۔

جمعہ، 26 ستمبر، 2014

زندگی تجھے میں نے [ایک نظم] ۔۔ انور زاہدی

انور زاہدی
زندگی تجھے میں نے 
کس جگہ نہیں دیکھا
صبح کے سویرے میں
شام کے اندھیرے میں
روز کے اُجالے میں
رات کے حوالے میں
خالی گھر کے آنگن میں
رات کی منڈیروں پر

بدھ، 24 ستمبر، 2014

آفاقی شعور اقبالؔ کے بعد مجید امجدؔ ہی کی نظم میں پوری طرح اُجاگر ہوا ہے ۔۔ تحریر وترتیب شکیل قمر

مجید امجدؔ نے جس آفاقی شعور کا مظاہرہ کیا ہے وہ اقبالؔ کے بعد مجید امجدؔ ہی کی نظم میں پوری طرح اُجاگر ہوا ہے       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
تحریر وترتیب شکیل قمر۔ بلیک پول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بر صغیر پاک و ہند کے اُدباء اور شعراء میں مجید امجد کوئی پہلا نام نہیں ہے جو معاشرے کی بے رحمی کی بھینٹ چڑھا ہو،تایخء اُردو اَدب اُٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو ایسے لوگوں

منگل، 23 ستمبر، 2014

ساتھ تھا بس خدا اور خدا رہ گیا ۔۔ سلیم شائم

سلیم شائم
کہنے سننے کو اب اور کیا رہ گیا
ساتھ تھا بس خدا اور خدا رہ گیا
وقتِ آخر سے پہلے وہ لوٹ آئے گا
بس اِسی آس پر در کھلا رہ گیا
میرے پندار کو اُس نے روندا بہت
جس کی صورت کو میں پوجتا رہ گیا
کتنی پختہ تھیں اس شخص کی نفرتیں
جس کی قربت میں بھی فاصلہ رہ گیا

پیر، 22 ستمبر، 2014

انتظار حسین کو فرانس سے آرٹ اینڈ کلچر ایوارڈ ملنے پر منظوم تاثرات: برقی اعظمی

بزمِ ادب کی شمعِ فروزاں ہیں انتظار
افسانوی ادب میں جوہیں فخرِ روزگار
عہدِ رواں کے اہلِ قلم میں ہین معتبر
ان کی نگارشات کو حاصل ہے اعتبار
ہے ناولوں میں روحِ زماں ان کے منعکس
افسانے ان کے اردو ادب میں ہیں شاہکار
باضی کی بازگشت ہیں ان کی نگارشات
’’ دلی تھا جس کا نام ‘‘ بھی ہے اُن کی یادگار

کل شب لگائی نیند کے چھونکے نے دل پہ نقب ۔۔ ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی

ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی
پیکر پسِ غبار چھپا لے گئی ہوا
تجھکو مری نظر سے بچا لے گئی ہوا
کل شب لگائی نیند کے چھونکے نے دل پہ نقب
طشتِ خیال یار اٹھا لے گئی ہوا
خوشبو ترے بدن کی رہی ساتھ چند سانس
لائی تھی اپنے ساتھ ہوا لے گئی ہوا
رکھے تھے میری میز پر کچھ پھول کچھ خطوط
کھڑکی کھلی ملی تو اڑا لے گئی ہوا

اتوار، 21 ستمبر، 2014

مَیں نے آنکھوں پہ کھڑی کی تھی عمارت اپنی ۔۔ سعید شارق

سعید شارق
مسند ِ عشق ہماری ہے نہ وحشت اپنی
کون چلنے دے سر ِ دشت حکومت اپنی
اپنے جیسا کوئی انسان تو ملنے سے رہا
مَیں بھلا کس پہ جتاؤں گا محبت اپنی
کار ِ دشوار نہیں خواب نگاری لیکن
کور چشمی سے بھی کچھ کم ہے بصارت اپنی
دل پہ تقلید ِ غم ِ رفتہ میں اُترا ہے ملال
یہ پیمبر کہاں لایا ہے شریعت اپنی

ہفتہ، 20 ستمبر، 2014

میر ے سو ا نہ ہو گا کوئی ایسا خوش گماں ۔۔ سید انور جاوید ہا شمی

سید انور جاوید ہاشمی
جس کو ہوا ہو ذ و ق مُیسر مر ے سوا
لکھتا ہے کون جا گتے شب بھر مرے سوا
لبٌیک جس نے گر د ش- دوراں سے کہہ دیا
آ یا نہ کو ئی گھر سے نکل کر مر ے سو ا
رہتا ہو جو ہُنر کی تر ا ش و خر ا ش میں
محفل میں ہے بتا ئیں سُخن ور مر ے سوا
میر ے سو ا نہ ہو گا کوئی ایسا خوش گماں
د یکھا کو ئی یقین کا پیکر مر ے سو ا 

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

پھر سے دیکھوں میں شہر ِ رسول ِ اُمم ۔۔ ناز بٹ

ناز بٹ
اے صبا اب اڑا مجھ کو سوئے حرم 
پھر سے دیکھوں میں شہر ِ رسول ِ اُمم
شہر ِ عظمت کو کھنچنے لگا میرا دل
خوشبو ئے شوق ہو جا مری ہم قدم
میری ہر سانس ہو وقف ِ ذکر ِ نبی
ہو اسی سے مرے روز و شب کا بھرم
عشق جس دل میں سرکار کا بس گیا
کب رہے پھر بھلا اس میں دنیا کے غم
گنبد ِ سبز کی یاد آئی جہاں 
مٹ گئے ہیں وہیں سارے رنج و الم
اے شہہ ِ دوسرا خاتم المُرسلاں
آپ کے دم سے قائم رہے میرا دم
حبس حد سے بڑھا آپ یاد آ گئے 
کُھل کے برسا مرے سر پہ ابر ِ کرم
میری بخشش کا سامان ہو جائے ناز 
ہو جو مدح ِ نبی میں رواں یہ قلم 

بدھ، 17 ستمبر، 2014

نظر کی ٹھیس سے ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں میں ۔۔ گلُریز‬ رُوحـانی- اَمر رُوحـانی

گلُریز‬ رُوحـانی- اَمر رُوحـانی
نظر کی ٹھیس سے ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں میں
کہ پور پور خراشوں سے پٹ گیا ہوں میں
تری تلاش میں خود کو الٹ پلٹ ڈالا
تجھے کرید کے خود سے لپٹ گیا ہوں میں
نہیں رہی وہ کھنک کوئی ٹھیکرے والی
نہ جانے کون سی مٹی سے اٹ گیا ہوں میں
جو ایک پھونک تفوّق کی مجھ میں پھیل گئی
اسی ہوا کے دباؤ سے پھٹ گیا ہوں میں
یہ تیری دی ہوئی طاقت ہے اے زوال مرے 
ترے عروج کے آگے بھی ڈٹ گیا ہوں میں
بس ایک دید ہی کافی ہوئی سرِ محمل
بس اک نظر میں ترا عکس رٹ گیا ہوں میں
یہ کائنات مری وسعتوں کا نقطہ ہے
یہ راز جان کے خود میں سمٹ گیا ہوں میں
ترے خرام سے خائف ہیں یہ مہ و انجم
مرے نصیب! تری رہ سے ہٹ گیا ہوں میں
نشست گاہ کے صوفوں پہ گرد بیٹھی ہے
غمِ جہاں میں زمانے سے کٹ گیا ہوں میں

پیر، 15 ستمبر، 2014

ہاتھی جنگل ۔۔ سعادت سعید

ڈاکٹر سعادت سعید
ہاتھی جنگل انسان کا مسکن نہیں بن سکتا
یہ اعصاب شکن چِنگھاڑتے وَحشیوں کا ٹھکانہ ہے
اس جنگل کے کھَڈّو ں میں 
شریانوں کی فصلیں کچلی جاتی ہیں 
ہر طرف پیڑوں کی شاخوں سے جھولتے الجھتے،
خون میں لتھڑے بوڑھے گھاگ سونڈ ہیں 
ایسےلمبے کان ہیں جن کوچیخیں سنائی نہیں دیتیں 
ان ہاتھیوں کے بڑے پیٹوں کی دلدلوں میں 
ڈوبنے والے سلامت نہیں رہتے
آنکس اور بیڑیاں رکھنے والے
مہاوت اورمحافظ سب کے سب اُن ہاتھیوں سسے خوفزدہ ہیں 

پھولوں کی خوشبو جب پاگل کرتی ہے ۔۔ نیلما ناھید درانی

نیلما درانی
دنیا چھوڑ کے جانے کو دل کرتا ہے
واپس پھر نہ آنے کو دل کرتا ہے
تنہا ئیوں کی راتیں جب بھی آتی ہیں
گیت پرانے گانے کو دل کرتا ہے
پھولوں کی خوشبو جب پاگل کرتی ہے
باغوں میں بس جانے کو دل کرتا ہے
جب اپنوں کے چہرے خالی لگتے ہیں
پھر سے انھیں بنانے کو دل کرتا ہے
اب تو عادت ہو ہی گئی ویرانوں کی
پھر بھی کبھی گھر جانے کو دل کرتا ہے

جمعرات، 11 ستمبر، 2014

زخم دل بھرنےسے پہلے، پھرہراہوجائےگا ۔۔ گلزیب زیبا

گلزیب زیبا
غم جدائی کا تسسلّی سےسوا ہوجائےگا
مجھکو کیا معلوم تھا یہ لا دوا ہو جائے گا
بارشیں یادوں کی تیرے پھر برسنے آگیئں
زخم دل بھرنےسے پہلے، پھرہراہوجائےگا
کیاخبرتھی زندگی اک دشت میں ڈھل جائےگی
ذھن بھی بس اک بھٹکتا قافلہ ہوجائے گا
ایک ہچکی کی ہےبس مرہون منت زندگی 
تیرے جانے پرمرا بھی فیصلہ ہو جائے گا
گھرسےہم نکلیں گےننّھی سی خوشی کوڈھونڈنے
اک بڑے دکھ سے ہمارا سامنا ہو جائے گا 
ساتھ توچھوڑےگامیرا،سنگ اسکےجاوں گی
موت سے میرا کیا وعدہ وفا ہو جائے گا
جومرے دل میں رہاہےمیری دھڑکن کی طرح
میرے پہلو سے نکل کر دوسرا ہو جائے گا 
جان کر اس نے کیا میری اُمنگوں کا لہو 
بےخطا کہنےسےکیا وہ بےخطا ہوجائےگا؟
چھوُلیا پتوار کو، گھبرا کے طوفاں دیکھ کر
ایسا کر لینے سے کیا وہ ناخدا ہو جائے گا 
اس نےمجھکومارڈالا حیرتوں کی تیغ سے 
تھا گُنہ تک سوچنا وہ بےوفا ہو جائے گا
جائے گا مکّے مدینے چند ہفتو ں کے لیئے 
دودھ سےدُھل کروہ پھرسے پارسا ہوجائےگا

پیر، 8 ستمبر، 2014

مگر یہ فطرتِ بے باک میری ۔۔ شہزاد نیئر


کہاں ہے وحشتِ نم ناک میری
بہت اڑنے لگی ہے خاک میری
 نہ اتنا ذکر ہو باغِ عدن کا
وھیں چھینی گئی پوشاک میری
 بدن کی شاخ سے میں اڑ چکا تھا
کہاں رکھتا رہا وہ تاک میری
 میں چپ رہتا تو بچ سکتی تھی گردن
مگر یہ فطرتِ بے باک میری
 مجھے ہی بھوک میں کھانے کو دوڑے
تمنا اس قدر سفاک میری
 عدو سہمے کھڑے ہیں ، میں نہیں ہوں
عجب بیٹھی ھوئی ہے دھاک میری
 مرے پہلے گنہہ کے بعد نیر
بہت روئی سرشتِ پاک میری
  

غزل گوئی صاحب کھلونا نہیں ہے ۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

سید انور جاوید ہاشمی
ا گر سُو ے شہرِ غز ل جا ئیے گا
تو د ا من بچا کر نِکل جا ئیے گا
اُ سے آ ئنہ د یکھتے د یکھ لیں گر
سر ِ آ ئینہ مت مچل جا ئیے گا
نجو می کا اِرشاد محتاط ر ہیئے
نہ جا ئیں اُ د ھر آج کل جائیے گا
نظر کا پھِسلنا تو کار ِ د گر ہے
اُ سے د یکھ کر مت پھِسل جائیے گا
کبحِ مثل ِ سا یہ سر شاخ ر ہ کر
ثمر د ا ر ہو کر کے پھل جا ئیے گا
ا گر نا م ر کھنا ہے باقی جہاں میں
کو ئی کر کے ا چھّا عمل جائیے گا
غزل گوئی صاحب کھلونا نہیں ہے
کہ سُن لیجیے گا بہل جا ئیے گا
سیّد انور جاوید ہاشمی،کراچی

بدھ، 3 ستمبر، 2014

یاد کی بوندیں (ایک نظم) ۔۔ انور زاہدی

انور زاہدی
تمہاری یاد کی بوندیں
دل آزردہ آنگن میں
یونہی برسا کریں گی بس
بدل جائیں گے سب موسم
فلک صحرا کی صورت میں
زمیں تکتا رہے گا
پرندوں کی طرح پتے درختوں سے
جُدا ہوکے
کسی سرسبز رُت کی 
ان کہی چاہت میں
غیبی آستانوں کی طرف 
ہواوں میں سمٹ کے بکھر جائیں گے
رُت بھی ڈھل جائے گی اور 
زمان و مکاں بھی بدل جائیں گے
صبح ہوگی 
مگر اُس گُلابی سحر کو ترستی رہے گی
راتیں اپنے تواتر سے آیا کریں گی
شب وصل ڈھونڈیں گی
محو ہو جائیں گی یاد سے صورتیں
بس دئیے جلتی آنکھوں کے 
ویراں منڈیروں پہ رکھے ہوئے 
شب کی تنہائی میں
آسماں سے 
اُترتی ہوئی اوس میں 
جگنووں کی طرح 
بھیگی آنکھوں کی مانند جل جائیں گے
ایک خاموش تنہائی میں
یاد کی بوندیاں 
یونہی برسا کریں گی

ڈال دے تو قفل کوئی پیار کی زنجیر کا .. وشمہ خاں وشمہ

وشمہ خاں وشمہ
کردیا سودا میرے ہر خواب کی تعبیر کا
گردش دوراں نے میرے پیار کی تفسیر کا
بے وفائی جب مقدر بن کے چمکے چار سو
بے اثر ہر لفظ ہوگا عشق کی تحرہر کا
یہ اندھیرے قلب کو تسکین دیتے ہیں میرے
اس لیے احسان لوں کیوں بے وجہ تنویر کا
بے وفائی سہہ کہ یہی زندہ ہوں یارو اس سے
جان سے پیارا ہے مجھ کو فیصلہ تقدیر کا
یہ تخیل مار ڈالے نہ کہیں وشمہ تجھے
ڈال دے تو قفل کوئی پیار کی زنجیر کا

منگل، 2 ستمبر، 2014

یہ جنگ اصل میں ہے اقتدار والوں کی جنگ ۔۔ قمر رضا شہزاد

قمر رضا شہزاد
یہاں غریب ہی کیوں بےگناہ مارا جائے
کوئی وزیر کوئی بادشاہ مارا جائے
میں جانتا ہوں یہاں عدل کرنے والوں کو
کسی کو کچھ بھی نہ ہو اور گواہ مارا جائے
یہ جنگ اصل میں ہے اقتدار والوں کی جنگ
ہمارے جیسا یہاں خوامخواہ مارا جائے
لہو میں ہر گھڑی پھنکارنے لگا ہے عشق
اٹھائو ہاتھ یہ مار ِ سیاہ مارا جائے
میں اپنے دل کے لئے فکرمند رہتا ہوں
نجانے کب یہ میرا خیرخواہ مارا جائے