ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعہ، 31 اکتوبر، 2014

ضامنِ دینِ ہُدیٰ ہے کربلا ۔۔ ارشد شاھین


ضامنِ دینِ ہُدیٰ ہے کربلا
حجّتِ آلِ عبا ہے کربلا
ظلمتوں میں ہے حوالہ نور کا
غمزدوں کا حوصلہ ہے کربلا
داستانِ عظمتِ شبیرؓ ہے
قصّۂ اہلِ صفا ہے کربلا
معرکہ ہے درمیانِ خیر و شر
دل سے دل کا فاصلہ ہے کربلا
ہے شہیدوں کے لہو کی یادگار
خاک و خوں کا سلسلہ ہے کربلا
دیں کی اک پیہم روایت تا ابد
ایک زندہ معجزہ ہے کربلا
ایک عشرے پر نہیں موقوف یہ
مستقل جگ میں بپا ہے کربلا
دردِ اہلِ بیت سے لبریز ہے
دل مرا یکسر ہوا ہے کربلا
معرکے جتنے ہوئے تاریخ میں
با خدا سب سے جدا ہے کربلا
دل دہل جاتا ہے ارشد سوچ کر
ایک ایسا سانحہ ہے کربلا

بدھ، 29 اکتوبر، 2014

صبر و تسلیم و رضا کی انتہا شبیر ہیں ۔۔ ذوالفقار نقوی

ذوالفقار نقوی
کشتی ِ دین ِ خدا کے نا خدا شبیر ہیں
تابع ِ مرضی ِ حق، حق کی رضا شبیر ہیں
شمع ِ حق ، جانِ نبی، شان ِ وِلا شبیر ہیں
اصل میں وجہ ِ بنائے لا الہ شبیر ہیں
وارث ِ دین ِ محمد ، فاتح ِ کرب و بلا
پیکر ِ جود و سخا، لطف و عطا شبیر ہیں
صاف آ جائیں نظر جس میں نقوش ِ زندگی
گلشن ِ ہستی میں وہ اک آئینہ شبیر ہیں
آ رہی ہے عزم ِ ابراہیم کی اب تک صدا
صبر و تسلیم و رضا کی انتہا شبیر ہیں
فکر ِ انسانی کے پر جل جائیں جا کر جس جگہ
عالم ِ عرفان میں وہ ابتدا شبیر ہیں
لغزشیں دم توڑ بیٹھیں آ کے جس کے سامنے
وہ ثبات و عزم اور وہ حوصلہ شبیر ہیں
جو بدل دے آن میں عنوان ہائے زندگی
نقطہ بیں، نقطہ بیاں، وہ زاویہ شبیر ہیں
مشکلیں آتی ہیں در پر با سر ِ تسلیم خم
رہنما، مشکل کشا و لا فتیٰ شبیر ہیں
چھوڑ کر دامان ِ ابن ِ مرتضیٰ جائیں کدھر
قاسم ِ جنت امام ِ دوسرا شبیر ہیں
از محمد، تا محمد، تا بہ محشر تا خدا
جوڑ دے اِن سب سے جو ، وہ سلسلہ شبیر ہیں
روزِ محشر کا بھلا کیوں خوف ہو نقوی تجھے
تیرے رہبر ہیں محمد، رہنما شبیر ہیں
ذوالفقار نقوی

بدھ، 15 اکتوبر، 2014

کوئی غیبی اشارہ ہو رہا ہے ۔۔ عرفان صادق

عرفان صادق
کوئی غیبی اشارہ ہو رہا ہے
بدن تپ کر شرارا ہو رہا ہے
کھڑا ہوں ہجر کے کس آسماں پر
کہ ہر آنسو ستارا ہو رہا ہے
مرے اندر دیئے جلنے لگے ہیں
وہ مجھ پر آشکارا ہو رہا ہے
وہیں پر ناو ڈوبی ہے ہماری
جہاں دریا کنارا ہو رہا ہے

پیر، 13 اکتوبر، 2014

ادبستان کے زیرِ اہتمام صبیحہ صبا کے پانچویں مجموعہِ کلام دل درد آشناکی تقریبِ رونمائی

ممتاز شاعرہ صبیحہ صبا کے پانچویں مجموعہِ کلام،، دل درد آشنا،،کی تقریبِ رونمائی  ادبستان ادبی نیٹ ٹی وی کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی۔تقریب کی صدارت ممتاز شاعر نجیب احمد نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی ممتاز ادیبہ اور شاعرہ فرحت پروین تھیں۔نظامت کے فرائض میزبانِ محفل رضاالحق صدیقی نے سرانجام دئیے۔
فرحت پروین نے کہا کہ صبیحہ صبا کے ہر شعر میں آپ اسے مجسم دیکھ سکتے ہیں،وہ فطری شاعرہ تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی سچی شاعرہ بھی ہیوہ جو اپنی شاعری میں کہتی ہے وہ اس کی سوچ ہے،اس کا کردار ہے،وہ خود ہے۔وہ سچی مالن کی طرح بڑی خاموشی سے گلستانِ ادب سے رنگ رنگ کے بھول جمع کرتی 
 ہے،گلدستے بناتی ہے،وہ اپنے عہد کی با تصویر تاریخ مرتب کر رہی ہے جسے وہ اردو منزل میں مرتب کر رہی ہے۔
ادبستان ٹی وی کے مالک اور مدیراعلیٰ ممتاز صحافی رضاالحق صدیقی نے کہا کہ صبیحہ صبا کی شاعری میں ایسی جاذبیت اور کشش ہے کہ پڑھنے والااپنے من میں ایک کسک محسوس کرتا ہے،وہیں اس دھرتی کی مٹی سے اٹھنے والی سوندھی
سوندھی خوشبو کو محسوس کرتا ہے

صبیحہ صبا نے اپنے اسلوبِ شعر کی تسکیل میں اپنے عہد کے مزاج کو ملحوظ خاطر رکھا۔صبیحہ صبا کی شاوری میں ایک موضوع وطن سے اظہارِ محبت بھی ہے جس کا اظہار وہ شاعرانہ حسن سے کرتی ہیں اور کہیں وہ محبت کے جذبات میں ڈوب جاتی ہیں۔رضاالحق صدیقی نے مزید کہا کہ وہ انقلابی فضا کی سکاس نظر آتی ہیں،یہ وہی فضا ہے جسے فیض احمد فیض  کی شاعری نے نمایاں تبدیل شدہ رحجان دیا۔صبیحہ صبا جب خود سے باہر نکل کر دیکھتی ہیں تو معاشرے کے دکھ،درد اور آلام انہیں بغاوت پر مجبور کر دیتے ہیں اور یہ وہی رحجان ہے جو فیض احمد فیض،احسان دانش اور حبیب ضالب کے ہاں پایا جاتا ہے

عظمی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے صبیحہ صبا کو ایسی شاعرہ قرار دیا جن کی شاعری میں بے انتہا خوبصورت اور عمدہ شعر موجود ہیں جو خوب سے خوب تر کی تلاز میں منزل کی طرف رواں دواں  ہیں۔
ممتاز ادیب اور شاعر پروفیسر سعادت سعید نے اپنے پر مغز مضمون میں صبیحہ صبا کے پانچویں شعری مجموعے کے بارے میں کہا کہ صبیحہ صبا نے شاعرات کی شاعری کو نئی جہت سے آشنا کیا۔انہوں نے شاعری کو داخلی آزادی کے حصول کا وسیلہ بنایا۔ وہ وسیلہِ حس میں کھل کر کائنات،سماج اور انسان کے مقابل اپنی ذات کا پرچم بلند کر سکتی ہیں۔وہ اپنی مرضی سے اپنی دنیا تخلیق کر رہی ہیں۔صبیحہ صبا مواشرے کا جزو ہوتے ہوئے ایک نئے معاشرے کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔
ناصر رضوی نے اپنی گفتکو میں صبیحہ صبا کی شاعری کو سراہااور کہا کہ ان کے اشعار میں موجود شائستگی اور نغمگی موجود ہے جو دلوں پر اثر کرتی ہے۔
صغیر  جعفری نے منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا۔ممتاز شاعر باقی احمد پوری کی موجودگی نے محفل کو رونق بخشی اور اپنا خوبصورت کلام پیش کیا۔ماہنامہ بیاض کے مدیر اور ادیب بعمان منظور نے بطور خاص شرکت کی۔
دوہا قطر کے ممتاز شاعر ممتاز راشد نے صغیر جعفری سے اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کیا۔صیحہ صبا کی شاعری کا سفر دیر سے جاری ہے اور پسنددیدگی کی سند حاصل کر چکا ہے۔
تقریب کے صدر نشیں ممتاز شاعر نجیب احمد نے  صبیحہ صبا کی ادب سے دیرینہ خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری خلفشار پیدا نہیں کرتی بلکہ برمی او آہستگی سے زیرِ لب اظہار کرتی ہیں۔ وہ معاشرے کی سچی تصویر کھینچتی ہیں۔وہ شاعری سے طویل عرصے سے وابستہ ہیں،شائستہ اور مہزب انداز میں جذبوں اور احساسات کو شاوری کے قالب میں ڈھال رہی ہیں۔
صبیحہ صبا کے اس مجموعے پر خالد احمس مرحوم کی رائے بھی درج ہے جو انہوں نے صبیحہ صبا کے مجموعہِ کلام،،تخیل،، سے ماخذ ہے جہاں خالد احمد نے لکھا،،پاکستانی ادب نے کلادکی رجحانات کے سائے میں حقیقت پسندی اور معاشرتی رویوں کی گود مین آنکھ کھولی۔ان دو عظیم روایتوں نے پاکستان کے دامن کو بیش بہا فن پاروں سے بھر دیا ان تراشیدہ ہیروں کی جھلمل میں کسی گہر آب دار کے لئے اپنی جگہ بنانا کنا دشوار ہے؟ اس کا اندازہ گزشتہ چالیس برس
 کے دوران صرف گنتی کے چند ناموں کے نمایاں ہونے سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔پاکستانی غزل کے باب میں گنتی کے چند ناموں میں ہماری صبیحہ صبا کا اسم گرامی بھی شامل ہے۔
 تقریب کے دوسرے دور میں موجود شعراء نے انتہائی عمدہ کلام پیش کیا۔آخر میں میز بان رضاالحق صدیقی نے احباب کا شکریہ ادا کیا۔

اتوار، 5 اکتوبر، 2014

غالب اکیڈمی میں امجد اسلام امجد کے اعزاز میں ادبی نشست

(رپورٹ:حبیب سیفی /احمد علی برقی اعظمی)
مرکز ادب غالب اکیڈمی دہلی میں پڑوسی ملک پاکستان کے 
شہر لاہور سے آئے مہمان ادیب وشاعراور معروف ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی آمد پر اکیڈمی کی طرف سے اعزازیہ کا اہتمام کیاگیا۔ جس کی صدارت غالب اکیڈمی گورننگ کونسل کی رکن ادیبہ وفنکشن نگارڈاکٹر ترنم ریاض اور نظامت عازم کوہلی نے فرمائی۔اس موقع پرڈاکٹر جی آر کنول نے فنی محاسن،ایڈیٹر زبیر رضوی نے کلچرل اور ثقافت،پروفیسرشہپر رسول نے غزل ونظم، اور عازم کوہلی نے اپنی امجد اسلام امجد سے قربتوں اور دیرینہ تعلقات کاذکر کیا۔

امجد اسلام امجد جن کے 15شعری مجموعے اور 45سے زیادہ دیگر اصناف پر کتابیں ہیں ان کے اعزاز میں رکھی گئی نشست میں ادیب وشعرا،صحافیوں کی کثیر تعدادغالب اکیڈمی میں دیکھی گئی۔امجد اسلام امجد نے اپنی زندگی کے سفر پر جامع انداز میں روشنی ڈالی اور عمدہ شاعری سے سامعین کو نوازا۔مہمان ادیب امجد اسلام امجد نے ڈائس سے کہاکہ میرا ہمہ جہت شخصیت کامالک ہونا بڑی بات نہیں کیونکہ غالب نے کہاتھا کہ میں یک فنا ہو مگر ایسا نہیں تھا،غالب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے،اسلئے میں ڈرامہ نگار اسکیرپٹ رائٹر،شاعر وادیب اورجو کچھ بھی ہوں وہ عطا ئے خدا وندی ہے۔یہ تو بہ ہر حال ماننا پڑے گا اورمیں کہتا ہوں کہ میں نے شاعری کو ڈرامہ نگاری پر قربان نہیں کیا،ہاں وارث جیسے ڈرامہ نے مجھے راتوں رات عروج کی بلندیوں پر پہنچادیااور آج بھی میرا نام دونو ں ممالک کی عوام کی زبانو ں پر ہے۔امجد اسلام امجد کا کہناتھا کہ آج تخلیقی حوالوں سے نئی راہیں روشن ہوئی ہیں،سچ تو یہ شاعری اور ڈرامہ نگاری میں کوئی حد فاصل نہیں ہے،کیمرہ کی ایجاد نے نئی ڈیوینشن دی ہے،ہم سب اپنے لئے اگر اپنے مقصد کی چیزین دریافت کرتے ہیں تو حیرانی کی بات نہیں۔رہی بات ڈرامہ نگاری کی تو میں نے 1980سے 2001تک صرف 9ڈرامہ لکھے اور ہر ڈرامہ کے دوران دوسال سے زیادہ کاوقفہ دیا،جو توقعات عوام نے مجھ سے لگائیں ان پر کھرا اترنے کی کوشش کی اور اللہ تعالی ٰکا شکر ہے کہ مجھے آج عزت وشہرت اور دولت غرض یہ کہ سبھی کچھ حاصل ہے،زیادہ کی تمنا میں بھاگ دوڑ کرنا میں نے گوارہ نہیں کیا۔اردو نے مجھے بہت کچھ ہی نہیں سب کچھ دیاہے، میں یہ محسوس کررہاہوں کہ اگر آج اردورسم الخط کی طرف توجہ دی جائے تو مزید اردو زبان فروغ پائے گی، آنے والے 10برسوں میں اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہوجائے گی، کیونکہ اس کی مقبولیت ساری دنیا میں یکساں ہے اور اسے آسانی سے سیکھ بھی لیا جاتاہے۔امجد اسلام امجد نے زور دیتے ہوئے کہاکہ فطری طور پر میں شاعر ہوں اور مجھے خوشی ہوگی اگر مجھے بحیثیت شاعر یاد کیاجائے گا۔مہمان ادیب نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ  ؎ محبت ایسا دریاہے،یہ بارش کم بھی ہوجائے،تو پانی کم نہیں ہوتا۔یاد رہے آئی سی سی آر والوں کی طرف سے بیگم اختر ایوارڈ لینے کے لئے امجد اسلام امجد بھارت آئے ہوئے ہیں،انڈیا ہیی ٹائٹس سینٹر میں یہ تقریب 7 اکتوبر کی شام میں منعقد کی جائے گی۔نشست کے آغاز پر سکریٹری غالب اکیڈمی ڈاکٹر عقیل احمد نے اردو رسم الخط کے فروغ پر زور دینے کی بات کہی اور کہاکہ آج اردو رسم الخط کی بقا کا مسئلہ ہے،لسانی سطح پراردو مقبول ہے۔غالب اکیڈمی کا قیام مرحوم حکیم عبد الحمید نے جس مقصد کے تحت کیاگیا تھا اسے پورا کیاجانا ہی ہمارا مقصد ہے۔متین امروہوی نے منظوم استقبالیہ پیش کرنے کے بعد شاعری سے محظوظ کیا۔صدارتی کلمات میں ڈاکٹر ترنم ریاض نے کہاکہ ہم اورہمارے  ہمسائے زبان کی بنیاد پر جڑے ہوئے ہیں اردو زبان جب تک زندہ ہے ہماری قربتیں زندہ رہیں گی۔اور کلچر ل وثقافت کی بنیاد پر میں یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ جس طرح ہمارے ملک میں جاں نثار اختر گلزار اور جاوید اختر ہیں اسی طرح پاکستان سے آئے امجد اسلام امجد بھی ہیں۔ہم توقع کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام خوشحال مستقبل کے زندگیاں جئیں گے۔ادبی نشست کے اہم شرکاء میں کے ایل نارنگ، اسرار جامعی، ڈاکٹراحمد علی برقی اعظمی،انجم عثمانی،شہباز ندیم ضیائی،حبیب سیفی، نسیم عباسی،راز سکندرآبادی،وریندرقمر، عبد الرحمٰن منصور،زہینہ صدیقی،بیگم وسیم راشد،اجے کمار عکس،ڈاکٹر واحد نظیر،ناگیش چندرا،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔سردار عازم کوہلی نے تمام 
شرکاء کا شکریہ اداکرتے ہوئے نشست کے اختتام کااعلان کیا۔
احمد علی برقی اعظمی،امجد اسلام امجد کو روحِ سخن
پیش کرتے ہوئے

ہفتہ، 4 اکتوبر، 2014

کربِ عصیاں مضطرب پیشانیوں سے جھڑ چکا ۔۔ ناصر ملک

ناصر ملک
بر سرِ آ شفتگی ہے ماجرائے سوختہ
اک تماشائے جنوں ہے انتہائے سوختہ
اک صدائے العطش نے بھید کھولے ہیں سبھی
ایک دریا بہہ رہا ہے ماورائے سوختہ
عمر بھر منظور تھی جلتے چراغوں کے لیے
رفعتِ شعلہ نوائی کو بقائے سوختہ
لکھ چکا ہے وقت بابِ مرقدِ تہذیب میں
آتشِ تر دامنی سے افترائے سوختہ
کربِ عصیاں مضطرب پیشانیوں سے جھڑ چکا
معبدوں میں اُڑ رہی ہے خاکپائے سوختہ
ابرِ باراں کی سخاوت پر دل و جاں ہیں نثار
چند بوندیں ڈھونڈ لایا ہے برائے سوختہ
کیا طلسمِ جاں کنی تھا لرزہ ءِ ماہِ تمام
اک فغاں دریا سے پھوٹی، شعلہ ہائے سوختہ

۔۔۔۔۔ ناصر ملک ۔۔۔۔۔

جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

عشق میں ہار کے اب سارے ہنر بیٹھے ہیں ۔۔ اوصاف شیخ

اوصاف شیخ
عشق میں ہار کے اب سارے ہنر بیٹھے ہیں
تجربہ ہم بھرے بازار میں کر بیٹھے ہیں
شائد اس بار تو رک جائے اٹھا لے ہم کو
ہم ترے راستے میں بار دگر بیٹھے ہیں
ڈھونڈنے نکلے تجھے خود کو گنوا کر آئے
تھام کے مٹھی میں اب گرد سفر بیٹھے ہیں
میں رہا ایک ستارے کے لیئے سرگرداں
کہکشائین ہیں یہاں شمس و قمر بیٹھے ہیں
ہم کہ خبروں کے تعاقب میں رہے سرگرداں 
اور اب یہ ہے کہ خود بن کے خبر بیٹھے ہیں
جس سے طوفان کی مانند وہ گزرا اوصاف
مل کے ہم آج بھی وہ راہگزر بیٹھے ہیں