ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعرات، 20 نومبر، 2014

پرانے مضامین اور استعاروں کو نئی جہت عطا کرنے والے لیاقت علی عاصم سے ایک مکالمہ

وہ ایک طوفانی رات تھی۔ موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔
زمین سے آسمان تک ایک پردہ سا تن گیا۔ لہریں ہوائوں کے رتھ پر سوار ہوئیں، جن کی زد میں آنے والا ایک بحری جہاز منوڑا کے ساحل پر پھنس گیا۔ حادثات کی اس دنیا میں امید کا اکلوتا سہارا ’’سگنل ٹاور‘‘ تھا، جہاں اس رات فقط ایک شخص موجود تھا۔ ایک شاعر!
لیاقت علی عاصم کو وہ رات اچھی طرح یاد ہے۔ وہ ٹاور پر تنہا تھے، اور ایک بھاری ذمے داری اُن پر آن پڑی۔ اُنھوں نے فوراً شپنگ آفس میں واقعے کی اطلاع پہنچائی۔ طوفانی بارش میں امدادی کارروائی کا آغاز ہوا۔ بالآخر صبح تک وہ جہاز نکال لیا گیا۔ جب صورت حال قابو میں آگئی، سمندر شانت ہوا، تب ایک شخص نے ان سے سوال کیا،’’کس کے بیٹے ہو؟‘‘ جواب میں اُنھوں نے اپنے والد، حاجی علی کا نام لیا، جو علاقے کی جانی مانی شخصیت تھے۔ پوچھنے والے نے کاندھا تھپتھپایا۔ ’’حاجی علی کا بیٹا ہی یہ کام کرسکتا تھا!‘‘ اُس پل کیا احساسات تھے، اِس کا اندازہ ایک بیٹا ہی لگا سکتا ہے۔

جمعہ، 14 نومبر، 2014

بند گلی ۔۔ ایم زیڈ کنولؔ ۔لاہور

ایم زیڈ کنول
گرد راہ سفر کی پیمبر تھی جو
خضر رہ جان اس کو میں بڑھتی رہی
روشنی کے سفر پہ میں چلتی رہی
یک بیک میری آنکھوں میں نور آگیا
بن کے صحرا محبت کا طور آگیا
میں جولپکی تجلی کے دیدار کو
طور کو اس اد اپر غرور آگیا
کیسا دیدار تھا کُوئے اغیار کا
بزم ہستی میں ہرسُو سرور آگیا
جذب و مستی میں کھوئی اُلجھتی رہی
روشنی کے کفن میں بھٹکتی رہی
تھک کے بیدم ہوئی
پھر بھی پُر دم رہی
منزلوں کی طلب تھی
یا ذوق سفر

منگل، 11 نومبر، 2014

منافقوں کے شہر میں عداوتوں کے زہر میں .. سبیلہ انعام صدیقی

منافقوں کے شہر میں عداوتوں کے زہر میں
بدلنا ہے فضا کو اب خلوص و امن و مہر میں
نظر کو میری بها گیا وہ ایک سادہ بات سے
وفا کی ہی امنگ ہے یہ دل جلوں کے شہر میں
نہ ہمسفر نہ ہمنوا مگر مرا ہے مہرباں
وہی رفیق و رازداں حکایتوں کے قہر میں
رواں ہے بہتے پانی میں عجب سی قدرتِ خدا
کہ لمحہ لمحہ رونما ہے انقلاب نہر میں
ہے زیست اس مقام پر کہ ڈهونڈتی ہے خا مشی
مرا وجود کهو گیا ہے دل خراش جہر میں
سبیلہ میرے پاس صرف نعمت ِ خلوص ہے
محبتیں ہی بانٹتی ہوں میں نظام ِ دہر میں

منگل، 4 نومبر، 2014

ہوں ہرے بھرے ترے شاخچے‘‘ہوں شجر شجر ترے چہچہے ۔۔ ماجد صدیقی

ماجد صدیقی
تری ہر دھنک ہے مری کماں‘مری خاک اے مرے آسماں
ترے نجم و ماہ مرے نشاں‘مری خاک اے مرے آسماں
مرا قلب ہو کہ قدم مرا‘تری دھڑکنوں سے رواں ہے وہ
مری روح اے مری جانِ جاں‘مری خاک اے مرے آسماں
میں جہاں بھی جاؤں ‘پھروں جہاں‘مرے خون میں ہے کشش تری
مرے مستقر مرے آستاں‘ مری خاک اے مرے آسماں
ہوں ہرے بھرے ترے شاخچے‘‘ہوں شجر شجر ترے چہچہے
ہوں رواں دواں ترے کارواں‘مری خاک اے مرے آسماں
مری اوڑھنی تُو مری ردا‘تری سرفرازی مری بقا
تو مرا بھرم مرا سائباں‘ مری خاک اے مرے آسماں
شب و روز‘شام و صباح ہے‘یہی وردِ ماجِدِ خوش بیاں
ترے بن بھی ہیں مرے گُلستاں‘مری خاک اے مرے آسماں

اتوار، 2 نومبر، 2014

ظُلم کو دشت میں ہوتے ہوئے رسوا دیکھا ۔۔ ذوالفقار نقوی

ذوالفقار نقوی
عبد و معبود میں اِک سر کا جو سودا دیکھا
ظُلم کو دشت میں ہوتے ہوئے رسوا دیکھا
کُفر لرزاں، صف ِ اعدا میں ہے نالہ، شیون
دستِ شبیر پہ اصغر کو جو ہنستا دیکھا
بیچ کر نفس کو لے لی ہو خدا کی مرضی
کوئی سودا کبھی دنیا میں  نہ ایسا دیکھا
آدم و خضر و براہیم و نبی ِ آخر
سب کے سجدوں کا محافظ ترا سجدہ دیکھا
با ادب جھک گئے کرنے کو وہ سجدہ یکسر
کربلا تجھ پہ فرشتوں نے جو کعبہ دیکھا
کر دیے تو نے بچانے کے فراہم اسباب
دین کی ڈوبتی کشتی نے کنارا دیکھا
دبدبہ کفر کا غرقاب ہوا پل بھر میں
نوک ِ نیزہ پہ جو شبیر کو گویا دیکھا
حق نہیں ہوتا کبھی مغلوب جفا کاروں سے
تیرا پیغام تہہ ِ تیغ بھی زندہ دیکھا
ریگ زاروں کو بھی ملتی ہے نوید ِ باراں
ظلمتوں نے ہے ترے در پہ اجالا دیکھا
جب چلا ضیغم ِ داور سوئے میدان ِ قتال
موت کا کفر کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا
نام ِ مولا کبھی آیا جو زباں پر میری
چشم تر میں نے ہر اک اپنا پرایا دیکھا
وائے مظلومی ء بیمار ترا کیا کہنا
تو نے پردیس میں اک حشر سا برپا دیکھا
مسند ِ دین پہ لادین کا قبضہ دیکھا
قتل ِ ناموس ِ پیمبر کا بھی فتویٰ دیکھا
بے ردا زینب و کلثوم کے سر بھی دیکھے
بے کفن سید ِ ابرار کا لاشہ دیکھا
حزن کا بار اٹھایا نہ گیا زینب سے
ایک بچی کا جو جلتا ہوا کرتا دیکھا
چھو کے لایا تھا جسے میں نے ترے روضہ سے
شہر میں بکتے، وہ کھوٹا سا بھی سکہ دیکھا
یہ فقط فیض ِ حسین ابن ِ علی ہے نقوی
ہر شب ِ غم کا جو تُو نے ہے سویرا دیکھا