ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

ہفتہ، 5 دسمبر، 2015

فصل خزاں میں جھُومتی اک گرد سی ہوا ۔۔ انور زاہدی

انور زاہدی

صبح خزاں ہوئی تو چلی سرد سی ہوا
گہری اُداس صبح میں وہ زرد سی ہوا
بادل کا رنگ نیلے فلک پہ اُڑان میں
اور ملگجی دوپہر میں وہ درد سی ہوا
چلتی رہی تمام دن آبادیوں میں پھر
فصل خزاں میں جھُومتی اک گرد سی ہوا
آتی رہی جو یاد تری اس ہوا کے ساتھ
رنگ ملال میں وہ بُجھی سرد سی ہوا
گلیاں مکان شھر سب ویران کر گئی
شام خزاں کی حُزن بھری ورد سی ہوا
انور صبح سےشام گئے اس ہوا کے ساتھ
پھرتے رہے نہ کچھ بھی ملا فرد سی ہوا

ہفتہ، 10 اکتوبر، 2015

رہِ سلوک کا مسافر۔۔۔۔ڈاکٹر فہیم رضاچشتی الکاظمی ..ایم زیڈ کنول

تصوف اور روحانیت لازم و ملزوم ہیں۔تصوف کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانیت کی۔جب جب انسانی قدریں پامال ہوئیں،کوئی صوفی، کوئی ولی اللہ ،کوئی اوتار، کوئی صاحبِ طریقت و صاحبِ شریعت ، ن قدروں کو بچانے کے لئے نجات دہندہ بن کے آ گیا۔ ان کا مذہب بھی انسانیت اور سوچ و فکر بھی ہر قسم کے تعصب سے عاری تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہر مذہب اور ملت کے لوگ ان کے حلقۂ اراد ت میں شامل ہوتے اور چشمۂ فیض سے سیراب ہوتے۔ عام پسے ہوئے،استحصال زدہ لوگ تو ایک طرف بڑے بڑے بادشاہ بھی ان کے آستانے پر سر جھکاتے رہے اور کسبِ فیض حا صل کرتے رہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام صحرائے عرب سے نکل کر سرزمینِ کُفوستان تک کو اپنی روشن کرنوں کے ہالے میں لے کر ظلمتوں کو سبق سکھانے لگا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان آستانوں سے لَو لگائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فہیم رضا کاظمی بھی انہی خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں ۔ آج کے نفسا نفسی، بیگانگی،اور خود غرض معاشرے میں وہ ان بزرگانِ دین کے راستے کو اپنا کر محبت، خلوص،امن اور علمیت کی مشعل تھام کر ظلمتوں سے برسرِ پیکار ہیں۔ اس نوجوانی کی عمر میں ، آج کے بگڑے معاشرے میں وہ تصوف و روحانیت کی عبا پہنے اپنی جستجوئے شوق اور جنون کو مہمیز دینے میں مصروفِ عمل ہیں۔ ذاتی زندگی سے لے کرمعاشرتی زندگی تک تو یہ جذبۂ جنون تھا ہی انھوں نے ادبی زندگی کو بھی اسی کے لئے وقف کر دیا ہے۔ شاعری ہو یا نثر وہ تصوف و روحانیت کا شہ پارہ ہے۔ مدح محمدﷺ و آلِ محمدﷺ ان کی شاعری کا مرغوب موضوع ہے۔ اقبالیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ غزل کہنے پر عبور حاصل ہے لیکن طبیعت اس طرف مائل ہوتی ہی نہیں۔ کسقدر خوش نصیبی کی بات ہے کہ اپلِبیت ؑ کی محبت انہیں اپنے حصار سے نکلنے ہی نہیں دیتی۔سید زادہ کا قلم اُٹھتا ہے تو اپنے بزرگوں سے محبت کا قرض چکانے کے لئے۔ یہ سعادت ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ روضۃ الاقطاب اُن کے ذوقِ تحقیق پر پڑاؤ کی دوسری منزل ہے ۔ اس سے قبل سلطان الہند جیسی معرکہ آراتصنیف کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کروا چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے ڈاکٹر فہیم رضٖا چشتی نے ساگرِ تصوف میں اترنے کے لیے سب سے پہلے جس موج کا انتخا ب کیاوہ حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری قدس اللہ سرہ جیسی جیدہستی ہیں جنہوں نے سرزمینِ ہندوستان پر اسلام کا بول بالا کیا۔ ان کے مریدین کا کوئی حساب نہیں۔ ۔ حضرت خواجہ بختیار کاکی ؒ بھی اسی ساگر سے وابستہ موج ہے۔ کتاب راحت المحبین کے مطابق حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا دستور و معمول تھا کہ ہر روز بائیس آدمی مرید کرتے تھے اور اس گروہ کو نصیحت فرماتے تھے کہ اپنا دامن بادشاہوں اور اہل دولت سے بچاتے رہو۔ اگر دنیا کی ہوس و طلبگاروں سے اپنا دامن نہ بچا پائے تو سیدھے راستے اور راہنمائی سے محروم رہو گے۔ آپؒ کی ذات گرامی کی برکت اور فیض تھا کہ آپؒ جس کو جس بات کی تاکید فرماتے وہ اس پر عمل کرتا تھا (راحت المحبین )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتاب ’’دلیل العارفین‘‘ کے مطابق جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ بغداد سے دہلی تشریف لائے تو سلطان شمس الدین آپؒ کے دہلی میں قدم رنجہ فرمانے پر سجدہ شکر بجا لایا اور آپؒ سے درخواست کی کہ آپ شہر میں جا کر التمش کے فراہم کردہ مقام پرٹھہریں ، لیکن آپ ؒ نے مصلحت الٰہی سلطان کی ا س پیشکش کو قبول نہیں فرمایا اور دلی شہر کے مضافاتی علاقہ ’’موضع کیلوکہڑی‘‘ میں قیام فرمایا۔ یہاں پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔ آپؒ کچھ عرصہ اس مقام پر ٹھہرے رہے۔ آپؒ کی شہرت کا چرچا دہلی کے علاوہ ہندوستان کے دیگر علاقوں تک پھیل چکا تھا۔ آپؒ کی دہلی تشریف آوری کی خبر سن کر ’’شیخ الاسلام دہلی مولانا جمال الدین احمد بسطامی‘‘ (جن کی ملفوظات پیرانِ چشت میں جا بجا تعریف و توصیف بیان ہوئی ہے)حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی ملاقات کے لیے حاضر ہوئے او رپہلی ہی ملاقات میں آپؒ کے معتقد ہوگئے ۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ نے شیخ الاسلام پر الفت فرمائی۔ دہلی کی رہائش گاہ سے آپؒ کے گھر کا فاصلہ پانچ کوس کی مسافت پر تھا، لیکن اس کے باوجود بادشاہ ہفتہ میں دو بارہ آپؒ کی خدمت میں حاضری دیتا۔
آپ کی کرامات کے بوصف آپکو کاکی کہا جا تا تھا۔محمد بولاق’’ کاکی‘‘ کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔
’’جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کے گھر میں فقر و فاقہ کا دور تھا۔ ایک بار تین دن مسلسل فاقے لگے تو حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کے گھر کی کسی بی بی نے شرف الدین بقال (سبزی فروش /دوکاندار)کی بی بی سے قرض لے لیا(اکثر بوقت اشدضرورت شرف الدین کے گھر سے قرض لے لیا جاتا تھا) ۔ ایک دن قرض لینے کے موقع پر شرف الدین بقال کی بیوی نے متکبرانہ انداز میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کی بیوی سے کہا۔’’ اگر ہم تمہارے پڑوس میں نہ رہتے تو تم لوگ پھر کہا ں سے کھاتے؟؟‘‘
جب یہ بات حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ تک پہنچی تو آپؒ نے اپنی بیوی صاحبہ کو ان لوگوں سے قرض لینے سے کلیتاً منع کر دیا اور اپنے کمرہ میں موجود ایک طاق کے طرف اشارہ کرکے فرمایا ۔
’’ جس وقت آپ کوکوئی چیز ضرورت ہو تو بسم اللہ شریف پڑھ کر حسب ضرورت طاق میں ہاتھ ڈال کر لے لیا کرو‘‘۔
اس دن کے بعد آپ ؒ کی اہلیہ محترمہ جس وقت طاق میں ہاتھ ڈالتیں توکاک(روٹی) گرم پاتیں اور بہت عرصہ تک آپؒ کے گھر کی ضرورتیں اس طاق سے پوری ہوتی رہیں
۔ علاوہ ازیں’’ کتا ب سیر الاولیاء‘‘ میں مذکور ہے کہ
آپؒ کے مصلے کے نیچے سے وافرمقدار میں کاک(روٹیاں) نکلتے تھے۔ اس وجہ سے بھی آپؒ کو کاکی کہا جانے لگا۔‘‘
ایک دن حضرت امیر خسرو حضرت سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت پانے پر آپؒ سے عرض کیا ۔’’ حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کو ’’ کاکی‘‘ کس وجہ سے کہتے ہیں؟‘‘سلطان المشائخ نے فرمایا۔
’’حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ اکثر حوضِ شمسی پر بیٹھے غوروفکر میں ڈوبے رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور آپؒ کے احباب و دوستوں نے آپؒ سے عرض کیا:’’ خواجہ صاحب! ایسی ٹھنڈی ہوا میں اگر گرم کاک (روٹی) مل جاتے تو کتنا ہی اچھا ہو‘‘۔آپؒ نے استفسار کیا۔ ’’ اس کا کیا کرو گے؟‘‘عرض کیاگیا: ’’ کام میں لائیں گے‘‘ (یعنی کھائیں گے)
پس حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ اٹھ کر تالاب کے پاس گئے اور پانی سے گرم کاک(روٹیاں) نکال کر دوستوں کے حوالے کیں۔ اس دن کے بعد دوستوں اور احباب نے آپؒ کو’’ کاکی‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ (کتاب افضل الفوائد)
ان بزرگوں کے احوال و معجزنمائی پر جو کتب مرتب ہوئیں افسوس کا مقام ہے کہ وہ زمانے کی دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ اس ساگر تک وہی پہنچ سکتا ہے جوتہہ تک اُترنے کے ہنر سے آشنا ہو۔ اس ہنر سےُ آشنا اور موجِ طریقت تک پہنچنے کے رموز سے آشنا سلسلہ چشتیہ ہی کے پیش رو محمد بولاق ، ہمشیر زادہ خواجہ نظام الدین اولیاء ’’جو مغل بادشاہ محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر کے مقرب اور منظو رِنظر تھے ‘‘نے اس کتاب میں قطب الاسلام حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ قدس اللہ سرہٗ کا احوال اور ان بزرگان کا احوال ہے، جوحضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار شریف کے قرب و جوار میں محو استراحت ہیں۔ اس نسبت سے اس کتاب کا نام محترم ’’محمدبلاق‘‘ نے ’’روضۃ الاقطاب‘‘ رکھا۔
نام تاریخ این خجۃ کتاب
وہ چہ زیباست روضہ اقطاب
محترم محمد بولاق نے اول اول اس بحرِ غواص سے موتی چننے کی سعی میں سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں کے احوال پر مشتمل گہر ریزے اس طور سمیٹے، اس میں تصوف کے نگینوں کی لڑیاں اس طرح پروئیں کہ اس شجرہ عالیہ کا آغاز اگرچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے کیا ہے۔لیکن اس کے بعداپنا شجرہ جو رسول ؐ خدا سے شروع ہو کر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؑ پر منتج ہے، بھی رقم کیا ہے۔ انہوں نے یہ تصوف پارہ فارسی زبان میں تالیف کیا، ۱۔ اس کی اشاعت اول اور دوم فارسی میں تھی ، اشاعت اول کے ناشر، لالہ چرنجی لال ہندوستان تھے جبکہ اشاعت دوئم کے ناشر: جگن ناتھ مطبع ’’محب ہند‘‘ فیض بازار دہلی ہندوستان تھے۔ اشاعتِ سوم اردو میں آخری بار 1309ہجری دہلی میں طبع ہوئی او رآج ہندوستان و پاکستان میں یہ ناپید ہے۔اس کی اشاعت کی بابت جگن ناتھ یوں رقم طراز ہیں۔
’’قبل ازیں یہ کتاب دو مرتبہ فارسی زبان میں طباعت ہوئی۔ لالہ چرنجی لال مرحوم (مالک چھاپہ خانہ) نے بڑی تحقیق اور تفتیش سے اس کتاب کو حاصلکرکے خصوصی اہتمام سے چھپوایا۔ لالہ چرنجی لال(مرحوم) بزرگان دین اور اولیائے کرام سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور انہیں ہمیشہ اولیائے کرام کی کتب دیکھنے، چھاپنے چھپوانے کا شوق رہا ہے۔ لالہ چرنجی لال(مرحوم) کے بعد دوسری بار اس کمترین (جگن ناتھ) نے اس کتاب کو دوسری مرتبہ طباعت کروایا، لیکن اس اشاعت کے بعد جلد ہی اندازہ ہوا کہ فارسی زبان کے قارئین مسلسل کم ہو رہے ہیں اور شائقین زبانِ اردو کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ راقم مجبور ہوا کہ اس کتاب کو اردو میں ترجمہ کرواکے چھپوائے ۔۔۔۔۔۔ اس طرح اس دُرِ نایاب کا با محارہ اردو ترجمہ کروا کر اس پر نظر ثانی کی گئی اور پھر تیسری بار یہ کتاب اردو زبان میں شائع ہوئی تاکہ ہر خاص و عام اور اردو دان طبقہ بھی اس سے مستفید ہو سکے۔‘‘
جگن ناتھ نے جو کوشش کی وہ اس زمانے کے تشنگانِ علم ہی کے لئے تھی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ اردو زبان نے بہت سی تدریجی منازل طے کیں ۔ 1309ہجری میں لکھی جانے والی اردو بہت ثقیل، مشکل اور غیر مانوس ہیں۔ اس زمانے میں بولے جانے والے بیشتر الفاظ متروک ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا وہ آج کے زمانے میں قابلِ فہم نہیں۔ مبارکباد کے مستحق ہیں سید فہیم رضا چشتی اورسعادتوں کے اس سفر پر ان کی ہمراہی کی سعادت حاصل کرنے والے ، سید نوشاد کاظمی جنہوں نے اس نا فہم کو قابلِ فہم بنانے کی سعی میں اس بحرِ ذخار میں غواصی کا شرف حاصل کرنے کے لئے حضرت خواجہ بختیار کاکی کے احوال ،ان کے انتہائی باریک بینی سے مطالعہ کیا او رنظر ثانی کے بعد اسے آسان فہم اور مروجہ زبان کی خلعت ہی عطا نہیں کی بلکہ یہ کتاب جو پرانے وقتوں کی اردو کی نمائندہ تھی تھے اسے آج کے زمانے کی عام فہم اردو کا پیرہن عطا کر کے جدید اردو کے قالب میں ڈھالا۔ زیرِ نظر کتاب میں حضرت سید خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے شجرۂ نسب سے لے کر اُن نے بچپن کے احوال،اُن کی ہندوستان آمد اور دہلی میں قیام ،دہلی کا شیخ الاسلام اور اس کینہ پرور شیخ الاسلام کی 

ساز ش اور انجام شیخ جلال الدین تبریزی کا احوال او ارشاداتِ عالیہ جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
َََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر ایم زیڈ کنول
 چیف ایگزیکٹو، جگنو انٹرنیشنل،لاہور۔۔
ایڈیٹر ، احساس۔۔۔جرمنی


منگل، 15 ستمبر، 2015

کل دیکهی اک کامنی [ایک نظم] انور زاہدی

انور زاہدی
کل دیکهی اک کامنی
گہرے سرخ لباس میں
جیسے سرو کا ہو اک بوٹا
روشن دہکی آگ میں
آنکهیں اس کی
جگمگ جگمگ
جلتے ہوئے چراغ
چہرہ اس کا
ہجر کے موسم میں
اک کهلا گلاب
جی چاہتا تها 
لفظ چرا کے 
اک تصویر بناوں
فطرت میں جو رنگ ہیں 
سارے ' وہ اس کو پہناوں
لیکن تهی برسات بلا کی
اس پہ گاڑی چهوٹی
رنگ ہوئے تحلیل فضا میں
من کی آس بهی ٹوٹی
کیسے رنگ سمیٹوں میں
اور کیسے لفظ سجاوں
نقش' 
جو آنکهوں میں ہیں ان کی
کیا تصویر بناوں

بدھ، 9 ستمبر، 2015

حسن سادہ تها نیم شب کو .. انور زاہدی

انور زاہدی
چاند آدها تها نیم شب کو
کیسا وعدہ تها نیم شب کو
خواب دیکها تها یا شبہ تها
خوف زیادہ تها نیم شب کو
کهلا دریچہ تو میں نے دیکها
حسن سادہ تها نیم شب کو
فلک ستاروں کا ایک جنگل
وقت آدها تها نیم شب کو
چاند وحشت میں بس رواں تها
عجب ارادہ تها نیم شب کو
دم مسافت جو مڑ کے دیکها
خالی جادہ تها نیم شب کو
انور زاہدی 

پیر، 7 ستمبر، 2015

تیسرا ایکٹ (افسانہ) ۔۔کاشف حنیف

کاشف حنیف

ٹک ٹک ٹک ۔۔ٹک ٹک۔۔۔سفید قلموں اور ناک پر عینک جمائے میں جناح آڈیٹوریم میں داخل ہوا تو نیچے لگی لکڑی کی پھٹیوں
پر میرے چلنے کی آواز میرے ذہن کے دریچوں پر پڑے قفل کھولنے لگی۔ میں نے بائیں جانب نظر دوڑائی تو ہال میں لگی سیڑھیوں کی شکل میں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہوئی تمام کرسیاں خالی پڑی تھیں اور دائیں جانب ہال کا سٹیج تھا۔جس کے دونوں جانب آیاتِ قُرآنی اور درمیان میں قائداعظم محمد علی جناح کا ایک بڑا پورٹریٹ دیوار کے ساتھ نصب تھا۔چند دیدہ زیب کرسیاں،روسٹرم اور کسی این جی او کا بینر،یہ سب چیزیں سٹیج پر دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے حال ہی میں کوئی سیمینار آڈیٹوریم میں منعقد ہوا ہو۔دیکھتے ہی دیکھتے میرا ماضی میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔
تب سٹیج خالی نہیں تھا بل کہ اُس پر آرٹس سے متعلقہ کچھ طلبا و طالبات ریہرسل میں مصروف تھے۔یونیورسٹی میں آرٹس کے طلباء و طالبات ایک این جی او کی معانت سے کینسر میں مبتلا لوگوں کے علاج معالجہ کے لیے فنڈز اِکٹھا کرنے کی غرض سے ایک سٹیج ڈرامہ کرنے جا رہے تھے۔ہم سب پچھلے تین دِن سے سیٹ لگانے،اپنے اپنے ڈائیلاگ یاد کرنے اور انھیں دُہرانے میں مصروف تھے۔کبھی کوئی چیز پوری ہو جانے سے رہ جاتی تو کبھی کوئی اور کام رہ جاتا۔صِرف ایک فرزانہ تھی جو اپنی ذات میں مکمل لگ رہی تھی شائد یہی وجہ تھی کہ وہ ڈرامہ کی ہیروئن کے طور پر کام کر رہی تھی۔


پیر، 22 جون، 2015

ادبی تنظیم جگنو انٹرنیشنل کی ادبی نشت و محفلِ مشاعرہ،صدارت پروفیسر شاہد چوہدری نے کی

 رپورٹ: مقصود چغتائی
ادبی، سماجی اور ثقافتی تنظیم جگنو انٹر نیشنل  نے  پاک ٹی ہاؤس، مال روڈ، لاہور میں ایک خوبصورت اور پُر وقار ادبی نشست و مشاعرہ کا اہتمام کیا۔تقریب کی صدارت  اردو  و پنجابی کے صاحبِ اسلوب شاعر،ادیب پروفیسر شاہد چوہدری نے کی۔جبکہ مہمانِ خصوصی منفرد لب و لہجہ کے شاعرانیس احمدتھے مہمانِ اعزاز کی حیثیت سے خوبصورت نوجوان شاعر حفیظ اللہ بادل (ٹیکسلا)سٹیج پر رونق افروز تھے ان کے علاوہ جگنو انٹر نیشنل کی چیف ایگزیکٹو، معروف شاعرہ، ادیبہ ایم زیڈ کنولؔ بھی سٹیج پر تشریف فرما تھیں۔توانا لہجے کے نوجوان شاعر، جنرل سیکرٹری،جگنو انٹر نیشنل،احمد خیال نے اپنے منفرد اور خوبصورت انداز 

جمعرات، 11 جون، 2015

چاند پھر نہیں دیکھا ۔۔ انور زاہدی

دلپذیر بستی میں 
دلنشین لوگوں کی
چاند رات مستی میں
رقص میں تھی رقاصہ 
رقص تھا سر محفل
مثل گُل مہکتی تھی 
رقص کر رہی تھی وہ
سحر سا فضا میں تھا
نُور کی کرن تھی وہ
ڈھول بج رہا تھا یوں 
دل دھڑک رہا ہو جُوں
گھنگھرووں کی جھنکا ریں 
چھُو رہی تھیں امبر کو
چاندنی کے جادو مین 
مست ہو رہے تھے سب
دل مچل رہے تھے یوں 
جذب کا ایک عالم تھا
سب سرُور میں تھے گُم 
اک لمحے اُسے دیکھا
اک ستون سے لگ کر 
رقص دیکھتی تھی وہ
اُس کی چشم مستانہ
بجلیاں گراتی تھیں
لوگ رقص میں گُم تھے
کھو گیا تھا میں اُس کی 
مست مست آنکھوں میں
چاند رات مستی میں 
دلنشین بستی میں
اُس کو دیکھ کر میں نے
چاند پھر نہیں دیکھا

بدھ، 13 مئی، 2015

یہ کون رشک بہاراں ادھر سے گزرا ہے ۔۔حکیم سلیم اختر ملک

حکیم سلیم اختر ملک
اگرچہ مجھ کو جہاں بھر کے غم لگے ہوئے ہیں
مگر یہ میری توقع سے کم لگے ہوئے ہیں
تجھے خوشی کی خبر کس طرح سنائوں میں
ترے مکان کی چھت پر علم لگے ہوئے ہیں
تجھے خبر ہی نہیں ہے ترے تعاقب میں
اک عمر سے ترے نقش قدم لگے ہوئے ہیں
غم حیات کے مارے ہوئے کئی عاشق
تری تلاش میں باچشم نم لگے ہوئے ہیں
تمہیں نہ دیکھیں تو ہر گز غزل نہیں ہوتی
کئی دنوں سے مگر سر بہ خم لگے ہوئے ہیں
یہ کون رشک بہاراں ادھر سے گزرا ہے
قدم قدم پہ نشان قدم لگے ہوئے ہیں
کسی کی شوق نگاہی کے یہ کرشمے ہیں
کہ ذہن و دل میں تماشے بہم لگے ہوئے ہیں
تلاش مہرو وفا میں اکیلے ہم ہی نہیں
ہزاروں اہل نظر دم بدم لگے ہوئے ہیں
سلیم کیسے چھپائوں میں ان کی نظروں سے
یہ میرے دل پہ جو داغ ستم لگے ہوئے ہیں
(حکیم سلیم اختر)

پیر، 16 مارچ، 2015

اردو زبان

ساحل فخر
میں اس وقت جزل بس اسٹینڈ سے تانگہ پر سواریاں بیھٹا کر مینار _ پاکستان کے قریب سے گزار کر یاد گار چوک کراس کر رہا تھا جب ایک ضعیف شخص نے تانگہ روکنے کا اشارہ کیا میں نے گھوڑے کی لگام کھینچی تانگہ روکتے روکتے دو قدم آگے جا روکا ضعیف شخص ہاتھ میں تھامی لاٹھی نما لکڑی کے سہارے چلتا ہوا میرے قریب آیا گویا ہوا "بیٹا مجھے نسبت روڈ پر جانا ہے کتنا کرایہ لو گے" ضعیف کا لہجہ پر اعتماد تھا مگر اس پر اعتماد لہجہ کے سمندر میں اداسی کی لہر محسوس کی جا سکتی تھی میں کہا "بابا جی ویسے تو میں کرایہ آٹھ روپے لیتا ہوں آپ بزرگ آدمی ہیں جو دل چاہیے دے دیجۓ گا" ضعیف اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو چند سکوں کے ساتھ ایک ورق موجود تھا سکے گن کر کہا "بیٹا میرے پاس پانچ روپے ہیں" میں نے مسکراتے ہوۓ کہا "ٹھیک ہے بابا جی آئیے بیٹھ جائیں" ضعیف "جیتے رہو بیٹا" یہ کہتے ہوۓ تانگہ پر چڑھ کر بیٹھ گیا میں نے گھوڑے کی لگام کو جہنجھوڑا گھوڑا ہنہنایا اور گھوڑے کو پیشاب آ گیا کچھ لمحے انتظار کے بعد میں سواریوں کو لے کر انار کلی بازار کی طرف رواں دواں تھا انار کلی بازار پر ضعیف کے سوا سب سواریاں اتر گئیں ان سے کرایہ وصول کرنے بعد گھوڑے کی لگام کو جہنجھوڑا اور نسبت روڈ کی طرف چل پڑا اس دوران ضعیف نے پوچھا "بیٹا تم کچھ پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہو" میں نے کہا "بابا جی میں پڑھا لکھا نہیں ہوں اگر پڑھا لکھا ہوتا تو تانگہ نہ چلا رہا ہوتا" ضعیف کچھ حیران دیکھائی دیے پھر کہا "بیٹا آپ کا لہجہ انداز _ بیان شاعرانہ جیسا ہے کہیں تم شاعر تو نہیں ؟ " میں مسکرا دیا گویا ہوا "کبھی کبھی پاک ٹی ہاؤس چلا جاتا ہوں چاۓ بھی پیتا ہوں اور شعراء ادیب سے گفتگو بھی ہو جاتی ہے کبھی کبھی ناصر کاظمی مل جاتے ہیں ان کے اصرار پر تانگے پر بیٹھا کر لاہور کے سڑکوں پر سیر کرواتا ہوں اور وہ پیچھے بیٹھ کر لال ٹین جلا کر کچھ لکھتے رہتے ہیں اس دوران کئی انوکھی باتیں بھی کرتے ہیں شاید ان شعراء و ادیبوں کی رفاقت کا فیض ہے آپ کو ایسا محسوس ہو رہا ہے" ضعیف کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ پھیلتی دیکھی کہنے لگے "یہ اردو زبان کا فیض ہے کہ یہ دلوں پر راج کرتی آ رہی ہے مگر بیٹا افسوس کی بات ہے پاکستان کی قومی زبان اردو آئین کے مطابق اب تک سرکاری و پرائیوٹ دفاتر و سکول گویا کسی بھی سطح پر نافذ نہیں ہوئی حکمران تو حکمران رہے ہم عوام کو بھی ابھی احساس نہیں ہوا کہ ہر سطح پر اردو نافذ ہونے پر پاکستان کا پاکستان کے ہر باشندے کا کتنا فائدہ ہو گا یہی تو ظلم ہے کہ نہ عوام میں شعور اجاگر ہوتا ہے کہ اپنا حق مانگیں اپنی مادری زبان اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کریں اور نہ ہی کچھ شیطانی طاقتیں چاہتیں ہیں کہ پاکستان میں پاکستان کی قومی زبان اردو نافذ ہو تم کیا سمجھتے ہو انگریز یہاں سے چلا گیا ہے ؟ نہیں بیٹا گورے اب بھی پاکستان کو کئی ٹکڑوں میں بٹتے ٹوٹتا دیکھنا چاہتے ہیں کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں پاکستان کی قومی زبان اردو کو وقعت کیا جا رہا ہے قومی زبان اردو کی بجاۓ انگلش زبان مسلط کی جا رہی ہے ، بیٹا کیا میں غلط تو نہیں کہہ رہا ؟ " نہیں بابا جی آپ سولہ آنے سچ کہہ رہے ہیں میں نے کہا ، ضعیف دوبارہ گفتگو کو جوڑتے ہوۓ کہا " میں گزشتہ دو برس سے 'تحریک اردو' نامی تحریک چلا رہا ہوں ہر ہفتہ 'زمیندار' اخبار میں 'تحریک اردو' کے عنوان سے میرا کالم شائع ہوتا ہے یہ سب قومی زبان کے لۓ کر رہا ہوں اس میں اپنا نہیں پاکستان کا فائدہ ہے آج اگر سب شعراء ادیب متحد ہو جائیں اور صرف اور صرف اردو زبان کے نافذ کرنے کے لۓ کالم ، مضمون ، شاعری ، تخلیق کریں تو میرا ایمان ہے کہ وہ دن دور نہیں رہیں گے جب پاکستان میں ہر سطح پر اردو نفاذ ہو گی اور پاکستان ترقی کے راہوں پر مزگان ہو گا ، میں نے کہا بابا جی میں تو ان پڑھ ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں واقعی قومی زبان نافذ ہونا چاہیے ، ضعیف جیب میں ہاتھ ڈال کر ورق نکالا اور کہا یہ کالم لکھا ہے جسے صرف اور صرف 'زمیندار' اخبار ہی شائع کر سکتا ہے یہ 'زمیندار' کے دفتر دینے جا رہا تھا لو میری منزل بھی قریب آ گئی بیٹا تم سے باتیں کر کے بہت اچھا لگا یہ کہتے ہوۓ جیب میں ہاتھ ڈال کر چند سکے نکالے اور میرے ہاتھ پر رکھ کر تانگہ سے اتر گۓ میں ضعیف کے جذبات سے بہت متاثر ہوا تھا اس لۓ ضعیف سے ان کا نام پوچھنے میں کوئی مضائقہ نہیں جانا میں نے کہا بابا جی اپنا نام تو بتاتے جائیں ضعیف روک کے مجھے دیکھنے لگے اور پھر یہ کہتے ہوۓ چل پڑے " میں اسی قائد کے خاندان کا فرد ہوں جس نے پاکستان بنایا ہے" اور میں عالم حیرت میں منہ کھولے انہیں جاتا ہوا دیکھ رہا تھا . . . . . ! 

ہفتہ، 14 مارچ، 2015

ادا جعفری کرگئیں سوگوار ۔۔ احمد علی برقی اعظمی



ادا جعفری کرگئیں سوگوار
تھیں دنیائے اردو میں جو باوقار
یکایک خزاں آشنا ہوگئی
گلستانِ شعر و ادب کی بہار
ہے وردِ زباں ”شہر در شہر“ آج
جو عصری ادب کا ہے اک شاہکار
ہے غزلوں سے ان کی عیاں روح عصر
ہے نظموں سے سوزِ دروں آشکار
ملا تھا انھیں تمغہِ امتیاز
یہ اعزاز ہے باعثِ افتخار
تھا خاتونِ اول بھی ان کا خطاب
تھیں اس عہد کی شاعرہ نامدار
ہے برقیؔ وہ اب مثل ماتم کدہ
تھی بزمِ ادب اُن سے جو سازگار
احمد علی برقی اعظمی

جمعہ، 13 مارچ، 2015

انا للہ وانا الیہ راجعون ! اردو کی معروف و معتبر شاعرہ محترمہ ادا جعفری انتقال کر گئیں


انا للہ وانا الیہ راجعون !
اردو کی معروف و معتبر شاعرہ محترمہ ادا جعفری اب ہم میں نہیں رہیں۔مرحومہ اردو شاعری کا ایک معتبر حوالہ تھیں ان کے اس دنیا سے کوچ کر جانے سے یقینا اردو شعر و ادب کی دنیا میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔
ادا جعفری 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا اصل نام عزیز جہاں ہے۔ ادا تین سال کی تھیں جب انکے والد مولوی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انکی پرورش اپنے ننھیال میں ہوئی۔
ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی اور وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اُس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی جس کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہیں ۔
ادا جعفری کے شعری سفر کا باقاعدہ آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا اور وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں۔ انکا شمار موجودہ دور کے صفِ اول کے معتبر شعراء میں ہوتا ہے۔ انکی شاعری میں شعورِ حیات اور دل آویزی، حرف و صورت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی موجود ہے۔
ادا صاحبہ کے مجموعہ ہائے کلام میں "شہرِ درد، میں ساز ڈھونڈتی رہی اور غزالاں تم تو واقف ہو" شامل ہیں۔ اُنکی کلیات کا مجموعہ "موسم موسم" کے نام سے 2002ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے اپنی خود نوشت "جو رہی بے خبری رہی" کے نام سے تحریر کی۔ ادا جعفری نے جاپانی صنفِ سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ " سازِ سخن بہانہ ہے" ان کی ہائیکو کا مجموعہ ہے۔
ان کے شعری مجموعے "شہر ِدرد" کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ 1991ء میں حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغۂ امتیاز سے نوازا۔  
ادا جعفری کی تصانیف
میں ساز ڈھونڈتی رہی (شاعری)
شہر درد (شاعری)
غزالاںتم توواقف ہو (شاعری)
ساز سخن بہانہ ہے (شاعری)
موسم موسم (کلیات2002ء)
جو رہی سو بے خبری رہی ( خود نوشت)

منگل، 17 فروری، 2015

چاند کو بھی پگھلتے دیکھا ہے ۔۔ انور زاہدی

انور زاہدی
شام میں دن نکلتے دیکھا ہے
چاند کو بھی پگھلتے دیکھا ہے
اُس کی آنکھوں میں رات بھر پیہم
ایک سُورج اُجلتے دیکھا ہے
جنگلوں میں ہوا کو روتے سُنا
ساحلوں پہ مچلتے دیکھا ہے
نیم شب بے نوا مکانوں میں
آ رزووں کو پلتے دیکھا ہے
ا یک خواہش رہی بے نام انور
دل کو لیکن سنبھلتے دیکھا ہے


جمعرات، 12 فروری، 2015

ادبی تنظیم جگنو انٹرنیشنل کی پہلی سالانہ تقسیم ایوارڈ تقریب و محفل موسیقی

 لاہور میں علمی،ادبی،سماجی اور ثقافتی روایات کی امین تنظیم، جگنو انٹر نیشنل کے زیرِ اہتمام سالانہ تقسیمِ تقریبِ ایوارڈ و محفلِ موسیقی منعقد کی گئی۔جس میں لاہور کے علاوہ پاکستان بھر سے ادیبوں،شاعروں،دانشوروں،سماجی شخصیات اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔پروگرام کی نظامت کے فرائض منفرد لب ولہجہ کے نوجوان شاعر،احمد خیال اور اردو و پنجابی کے شاعر پروفیسر آغا مزمل نے سر انجام دیئے۔صدارت کے منصب پر معروف شاعر،ادیب،صحافی و دانشورپروفیسرلطیف ساحل متمکن تھے۔ سٹیج کی کہکشاں میں جگنو انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹو،اردووپنجابی کی شاعرہ،ادیبہ، شریف اکیڈمی،جرمنی سے اردو ادب کا گوہرِ انمول کا خطاب حاصل کرنے والی،ایڈیٹر احساس جرمنی محترمہ ایم زیڈ کنولؔ ؔ، معروف شاعروادیب،پروفیسر احمد ساقی،پرنسپل اوکاڑہ کالج، ڈائریکٹراکیڈمی ادبیات محمد عاصم بٹ،راولپنڈی سے تشریف لائے ہوئے شاعرپروفیسر کلیم احسان بٹ، اورراولپنڈی سے ہی معروف شاعروسرجن ڈاکٹرفرحت عباس،کراچی سے کوآرڈینیٹر، معروف شاعر،موجِ سخن کے روح و رواں نسیم شیخ،معروف شاعر، صحافی،ادیب اور دانشورڈاکٹراخترشمار،امریکہ میں براڈ کاسٹر معروف پنجابی شاعرلیاقت عیش،معروف شاعر و صحافی اعتبار ساجدجیسے درخشندہ ستارے تھے۔ایم زیڈ کنول نے مہمانوں کو پھول پیش کئے۔ پروگرام کاآغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا۔ جس کی سعادت محمد زوہیب،سٹوڈنٹ جی سی یونیورسٹی لاہور جبکہ نعتِ رسولِ مقبولﷺعائشہ ڈگری کالج کی سٹوڈنٹ یاقوت فاطمہ نے حاصل کی۔اس کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ایم زیڈ کنول ؔنے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اس کے بعد تقسیم ِایوارڈکا سلسلہ شروع ہوا۔سب سے پہلے جگنو انٹرنیشل کے عہدیداران کو شیلڈ آف نامینیشن اوراسناد سے  نوازاگیا۔جس میں پروفیسرلطیف ساحل،ڈاکٹر اختر شمار، عفت علوی (ممبرز مشاورتی کونسل) بشریٰ حزیں (صدر)شگفتہ غزل ہاشمی(نائب صدر)احمدخیال(جنرل سیکرٹری)ڈاکٹرثروت     زہراسنبلؔ،(سیکرٹری فنانس)مقصود چغتائی(سیکرٹرٰی۔نشرواشاعت)اقبال کمبوہ(سیکرٹری۔سوشل    میڈیا)ارم ہاشمی(کوآڈینیٹر)                                    ،میانوالی، پروفیسرمیاں مسعوداحمد (کوآڈینیٹر) 

         امریکہ،وحیدقمر(کوآڈینیٹر)فرینکفرٹ،جرمنی،ثناسونی(میڈیاکوآڈینیٹر)بلوچستان،سیدکائناتی(کوآڈینیٹر)چترال،ڈاکٹرفہیم کاظمی(کوآڈینیٹر)بہاولپور،شامروز احمد(سٹوڈنٹ کوآڈینیٹر) لاہور گرامر سکول،بلال احمد جعفری(سٹوڈنٹ کوآڈینیٹر)پنجاب    یونیورسٹی،لاہور،یاقوت فاطمہ(سٹوڈنٹ کوآڈینیٹر)عائشہ ڈگری کالج،لاہور شامل تھے۔ پروگرام کے اگلے مرحلے میں شاعروں ادیبوں اور دانشوروں کو ایوارڈز، اسناد، اور خطاب سے نوازا گیا۔(ا یوارڈبرائے صحافتی خدمات) فرنٹیئر پوسٹ،رحمت شاہ آفریدی، اعتبار ساجد (اِدارتی خدمات)(فروغِ ادب ایوارڈ)محمد عاصم بٹ (ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات،لاہور،اور پروفیسر احمد ساقی،پرنسپل گوگیرہ،اوکاڑہ،فروغِ فن و ثقافت ایوارڈ، غلام عباس فراست،ڈاائریکٹر پنج ریڈیو یو ایس اے،الماس شبی، فروغِ عالمی ادب ایوارڈ،عالمی سطح پر شفیق مراد،جرمنی کی خدماتِ فروغِ ادب کے اعتراف میں انہیں سفیرِ ادب کے خطاب سے جبکہ ممتاز اردو و پنجابی کے شاعر، ماہرِ عروض زُلفی سید کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔پروفیسرکلیم احسان بٹ، ڈاکٹر فرحت عباس(راولپنڈی)،لیاقت عیش (امریکہ)ڈاکٹر لبنیٰ آصف،سید صداقت نقوی اور عتیق خان (میانوالی)کو شیلڈ آف آنر سے نوازا گیا۔جگنو انٹر نیشنل عالمی سطح پر فروغِ ادب کے لئے سرگرمِ عمل ہے۔شاعر، ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، دہلی، انڈیا،شا عر، ادیب،ماہرِ عروض،نقشبندقمر نقوی،انڈیا،ادیبہ، محقق،ڈاکٹر عشرت ناہید، اسسٹنٹ پروفیسر مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی، لکھنؤ کیمپس،

انڈیا،شاعر،ادیب،رئیس الدین رئیس، انڈیا،ایڈیٹر انچیف، بہار اردو یوتھ فورم،امروز ہند جاوید، انڈیا،ادیب، ماہرِ تعلیم، ڈاکٹر راغب دیشمکھ، لکھنؤ، انڈیاکو آن لائن سندِ اعزاز سے نوازے جانے کا اعلان کیا گیا۔پروفیسر لطیف ساحل، پروفیسر احمد ساقی،  ڈاکٹر اختر شمار،ڈاکٹر فرحت عباس،عاصم بٹ،لیاقت عیش، مقصود چغتائی،نسیم شیخ،پروفیسر کلیم احسان بٹ اور دیگر شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے فروغِ ادب کے لئے محترمہ ایم زیڈ کنولؔ، چیف ایگزیکٹو،جگنو انٹرنیشنل کی خدمات کو زبر دست خراجِ تحسین پیش کیا،جو علم و ادب کی آبیاری میں سر گرمِ عمل ہیں۔کراچی، راولپنڈی میانوالی، مظفرآباد(آزاد کشمیر) سرگودھا،اور اوکاڑہ سے نامور شخصیات کی خصوصی طور پر اس تقریب میں شمولیت کے لئے تشریف آور ی اس ادبی تنظیم کی فروغِ ادب کے لئے خدمات کا اعتراف ہے۔ایم زیڈ کنولؔ نے چیریٹی فنڈ کے اجرا کے لئے تجویز پیش کی تا کہ مستحق، لیکن جینوئن ادیبوں، شاعروں اور ان کے خاندانوں کی کفالت کے لئے کوششیں کی جا سکے۔اس تجویز کا خیر مقدم کیا گیا اور آئندہ کسی تقریب میں اس فنڈ کی لانچنگ کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔پروگرام کے اگلے مرحلے میں محفلِ موسیقی کا اہتمام کیا گیا۔معروف کلاسیک گلوکاراور فروغِ فن میں کوشاں غلام عباس فراست نے ایم زیڈ کنول،پروفیسر لطیف ساحل اور ڈاکٹر اختر شمار کا کلام انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کر کے داد و تحسین وصول کی۔ معروف فوک سنگر عدیل  برکی اور منظور ملنگ نے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے محفل کا رنگ دوبالا کر دیا۔تقریب میں انیس احمد، سیکرٹری پنجاب ادبی سنگت، ساجد خان رپورٹر خبریں،اورنگ زیب،بشریٰ بخاری،سید فراست بخاری، نیلمہ درانی، معروف کالمسٹ ملیحہ سید،فرنٹیئر پوسٹ،اورنگ زیب،طاہر علی، شبانہ طاہرناصرہ اقبال کمبوہ،طارق اسمٰیل صوفی، بلال جعفری اور دیگر نامور علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ آخر میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر کے کیفے میں جگنو انٹر نیشنل کی پہلی سالگرہ کا کیک کاٹا گیایوں یہ خوبصورت اور باوقارتقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔

جمعرات، 5 فروری، 2015

یہ رازِ بوسۂ لب ہے، عیاں تو ہوگا ہی ۔۔ رحمان فارس

رحمان فارس
اِدھر اُدھر کہیں کوئی نشاں تو ہوگا ہی
یہ رازِ بوسۂ لب ہے، عیاں تو ہوگا ہی 
تمام شہر جو دھندلا گیا تو حیرت کیوں ؟؟؟ 
دِلوں میں آگ لگی ہے ، دھواں تو ہوگا ہی
بروزِ حشر مِلے گا ضرور صبر کا پھل
یہاں تُو ہو نہ ہو میرا ، وہاں تو ہوگا ہی
یہ بات نفع پرستوں کو کون سمجھائے ؟؟
کہ کاروبارِ جنُوں میں زیاں تو ہوگا ہی
ہم اس اُمید پہ نکلے ہیں جھیل کی جانب
کہ چاند ہو نہ ہو ، آبِ رواں تو ہوگا ہی
مَیں کُڑھتا رھتا ہوں یہ سوچ کر کہ تیرے پاس
فُلاں بھی بیٹھا ہو شاید ، فُلاں تو ہوگا ہی 
یہ بات مدرسۂ دل میں کھینچ لائی مجھے
کہ درس ہو کہ نہ ہو ، امتحاں تو ہوگا ہی
مگر وہ پھول کے مانند ہلکی پُھلکی ہے
سو اُس پہ عشق کا پتھر گراں تو ہوگا ہی
غزل کے روپ میں چمکے کہ آنکھ سے چھلکے
یہ اندرونے کا دکھہے ، بیاں تو ہوگا ہی
بڑی اُمیدیں لگا بیٹھے تھے سو اب فارس
ملالِ بے رخئ دوستاں تو ہو گا ہی
رحمان فارس

ہفتہ، 31 جنوری، 2015

مجھے شاعری سے عداوت نہیں ہے ۔۔ سبیلہ انعام صدیقی

سبیلہ انعام صدیقی
مجھے شاعری سے عداوت نہیں ہے 
مگر حد سے بڑھ کر محبت نہیں ہے 
جو قائد کے خوابوں کو تعبیر بخشے
ابھی ایسی کوئی حکو مت نہیں ہے
دکھاوے کی جتنی نمازیں پڑھیں ہیں
تسلی فقط ہے عبادت نہیں ہے
مری باتیں تم کو بری تو لگیں گی
مگر میرے دل میں کدورت نہیں ہے
جونظریں ہی تم نے بدل لیں ہیں مجھ سے
تو پھر ساتھ چلنا رفاقت نہیں ہے
اگر ہے گلہ ، تو وہ اتنا سا جاناں
تمھا رے بیا ں میں صدا قت نہیں ہے
نہ سمجھا نہ پرکھا نہ مجھ سے کہا کچھ
مرا پیار کوئی حماقت نہیں ہے
یہ دنیا تو ہے چار دن کا ہی میلہ
کہ گم اس میں رہنا شرا فت نہیں ہے
یہا ں ما ر تا ہے جو بھا ئی کو بھا ئ
یہ ہے ظلم، منشا ئے قدرت نہیں ہے
جو کرتے ہیں خود کش یہ حملے وہ سن لیں
یہ طرزِ عمل تو شہا دت نہیں ہے
خدایا تو ہم پر کرم خاص کردے
مسلماں میں اب وہ بصیرت نہیں ہے

پیر، 26 جنوری، 2015

لہو بول اٹھا ۔۔ امجد جاوید کی سانحہ پشاور کے پس منظر میں لکھی ہوئی کہانی


اس صبح میں ندیم کو دیکھ کرچونک گیا۔ دھند پھیلی ہوئی تھی،وہ کلاس روم سے باہر برآمدے کے ستون کے ساتھ لگا کھڑا تھا ، سردی سے بے نیاز نجانے کیاسوچ رہا تھا۔ میں اسے ایک نگاہ ہی دیکھ پایا تھا۔ میں اس کے قریب سے گذرا اور سٹاف روم کی جانب بڑھ گیا۔لیکن ندیم کا چہرہ میری نگاہوں سے نہیں ہٹ رہا تھا۔میں نے کبھی بھی اسے یوں سوگوار نہیں دیکھا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب طرح کا تاثر تھا، جسے میں سمجھ نہیں نہیں پایا تھا اور اسی تاثر نے مجھے ندیم کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ندیم میری کلاس کا سب سے زیادہ شرارتی بچہ تھا۔ وہ نویں کلاس میں تھا۔ لمباقد، مضبوط جسم، گندمی رنگ، تیکھے نقش، سیاہ بال، خاص طور پر ذہانت بھری آ نکھیں۔ میں تو اس سے تنگ تھا ہی ، میری طرح دوسرے اساتذہ بھی اس سے نالاں ہی رہتے تھے۔ جس دن اس کی شکایت نہ آتی، اس دن حیرت ہوتی ۔ کلاس پر اس نے رعب جمایا ہوا تھا اور مانیٹر بے چارہ اس سے ڈرتا رہتا تھا۔ لیکن۔! ان ساری باتوں کے باوجود ہم سبھی اساتذہ اسے نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ شرارتی تو تھا لیکن بدتمیز نہیں تھا۔ شرارت اور بدتمیزی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ دوسرا اس کا شمار ذہین ترین طلبہ میں ہوتا تھا۔ میں بھی اور دوسرے اساتذہ بھی اسے ہمیشہ یہی تلقین کرتے کہ اگر وہ دل لگا کر پڑھے تو بہت زیادہ مارکس لے سکتا ہے۔ کتابوں پر اس کی توجہ کم اور دیگر کاموں پر اس کی توجہ زیادہ ہوتی تھی۔ وہ بہت اچھا کھلاڑی تھا۔ کچھ دنوں پہلے انٹر سکول ٹورنامنٹ میں اس نے کئی کھیلوں میں انعامات جیتے تھے۔ اس کے والد صاحب سے میری مسجد میں اکثر ملاقات رہتی تھی ۔ وہ ندیم کے بارے یہی خواب دیکھتے تھے کہ اسے ڈاکٹر بنائیں گے۔ وہ یہی کہتے تھے کہ وہ پوری توجہ پڑھائی کی طرف لگائے گا تو ہی ڈاکٹر بن سکے گا۔
ندیم کے چہرے پر ہمیشہ ایک خوشگوار مسکراہٹ رہتی تھی۔ اس کی ذہانت بھری آ نکھوں میں زندگی کی بھر پور چمک رہتی تھی۔ لیکن اس صبح جب میں نے اسے مر جھایا ہوا دیکھا، تو فطری طور پر میں چونک گیا کہ اسے کیا ہوا ہے؟
سکول بیل بج گئی۔اسمبلی شروع ہو گئی۔ ندیم اپنی کلاس کی قطار میں یوں کھڑا تھا، جیسے اسے اپنے ارد گرد کا ہوش نہ ہو۔تلاوت اور نعت جب پڑھی جا رہی تھی، وہ پورے جذب میں تھا۔ جیسے ایک ایک لفظ اپنے اندر اتار رہا ہو۔ اس کے بعد جب قومی ترانہ پڑھا جا نے لگا تو وہ ایک دم سے یوں سیدھا کھڑا ہوگیا ، اس کے اندر جوش اور جذبہ نجانے کہاں سے امنڈ آیا۔ میں نے خاص طور پر نوٹ کیا کہ سارے اسکول کے بچوں کے ساتھ وہ قومی روانہ پڑھ رہا تھا،لیکن اس کی نگاہیں لہراتے ہوئے سبز ہلالی پرچم پر تھیں۔ اور اس وقت تو میں بری طرح جھنجھلا گیا، جب ترانے کے آ خر میں اس کی آ نکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے یقین ہو گیا کہ ندیم کے ساتھ کوئی معاملہ ضرور ہے۔ میرے ذہن میں بہت ساری باتیں گونجنے لگیں۔ کئی خیال آنے لگے کہ ممکن ہے اس کے والد صاحب نے ڈانٹا ہو یا ایسے ہی کئی خیال آتے چلے گئے۔ میں سوچتا رہا ۔ اسمبلی کے بعد بچے اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔
میں کلاس روم میں گیا۔ حاضری لگانے کے بعد پڑھائی شروع ہوگئی۔ اس دوران بھی ندیم ایسے ہی رہا۔ اس کا سارا دھیان کتاب کی طرف تھا۔تبھی ایک دم سے مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے یہ بھی اس کی کوئی نئی شرارت ہو۔ لیکن اگلے ہی لمحے یہ سوچ میرے دماغ سے نکل گئی۔ اس کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے آنسوؤں نے اس سوچ کو ایک لمحہ سے بھی زیادہ دیر تک میرے دماغ میں نہیں رہنے دیا۔میں نے فیصلہ کر لیا کہ کلاس کے بعد ندیم سے بات کروں گا۔
کلاس تم ہوگئی تو میں نے اسے بلایا اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ وہ میرے ساتھ چلتا ہوا سٹاف روم میں آ گیا۔ میں نے الماری میں اپنا سامان رکھا اور اسے لیکر ایک خالی کمرے میں آ گیا۔ میں چند لمحے اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا، پھر پوچھا
’’ ندیم ۔! کیا بات ہے، تم اس قدر مرجھائے ہوئے کیوں ہو؟‘‘
اس نے چونک کر میری جانب دیکھا،جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو۔ پھر میری طرف دیکھ کر بھرائے ہوئے لہجے میں بولا
’’ سر۔! کل آپ نے ٹی وی نہیں دیکھا، کوئی خبر نہیں سنی؟‘‘
تبھی شدید دکھ کی لہر نے مجھے جکڑ لیا۔ مجھے پشاور آرمی پبلک اسکول کے بدترین سانحے کا درد پھر سے جاگ اٹھا۔ ٹی وہ دیکھے گئے مناظر، پھول سے بچوں کو دہشت گردی کا شکار ہونے کی خبر نے ایک دفعہ تو جگر پاش پاش کرکے رکھ دیا۔ دل تھا کہ پھٹا جا رہا تھا۔ آنسو بے ساختہ آ نکھوں سے رواں تھے۔ میں ساری رات نہیں سو پایا تھا۔ مجھے یہی خیال آ تا رہا تھا کہ ان ماؤں کا حال اس وقت کیا ہے ، جن کے سامنے اس کے بچوں کا جسم خون آلود پڑا ہوگا۔ اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کو خون میں نہایا دیکھ کر والدین پر کیا گذری ہوگی۔ اگر اس سانحے میں میرا بچہ ہوتا تو میں کیا کر رہا ہوتا۔ مجھے یہی احساس ہونے لگا کہ وہ میرے بچے تھے۔ میرے وطن میں کھلنے والے وہ پھول تھے، جنہیں دنیا کی ذلیل ترین مخلوق نے دہشت گردی کا نشان ہ بنا کر مسل ڈالا۔ ان بچوں کا کیا قصور تھا؟ میں نے جو خود کو بڑی مشکل سے قابو کیا تھا، تاکہ اسکول کے بچوں کے سامنے میرے آ نسو نہ نکل پائیں، ندیم کے ایک سوال سے نجانے کب میری آ نکھوں سے آ نسو رواں ہو چکے تھے۔
’’ ہاں بیٹا۔! میں نے دیکھا۔‘‘ میں اتنا ہی کہہ پایا تو وہ درد انگیز لہجے میں بولا
’’ سر، وہ کیسے درندے ہوں گے ، جنہوں نے اتنی سفاکی سے ان بچوں پر گولیاں چلائیں۔ وہ انسان نہیں ہو سکتے ۔کسی بچے کی چیخ نے ان کا دل نہیں پھاڑا؟‘‘
’’ نہیں بیٹا۔ وہ انسان نہیں تھے۔ درندے تھے، سفاک درندے، وحشی، جن کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا، پھر سر جھٹک کر پوچھا’’ کیا تم اسی وجہ سے افسردہ ہو؟‘‘
’’ سر ، میں افسردہ ہی نہیں، اور بہت کچھ سوچ چکا ہوں۔‘‘ وہ ایک عزم سے بولا
’’ کیاسوچ چکے ہو؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا
’’ یہی کہ میں نے ان دہشت گرودں سے بدلہ لینا ہے۔‘‘ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا
’’ بدلہ لینا ہے؟ تم نے ، کیا کروگے؟‘‘ میں نے ایک دم سے چونکتے ہوئے پوچھا
’’ ہاں سر، میں نے بدلہ لینا ہے۔‘‘ اس نے پھر اسی مضبوط لہجے میں جواب دیا
’’ کیسے۔ ابھی تو تم بہت چھوٹے سے لڑکے ہو، تم کیا کرو گے؟‘‘ میں نے پوچھا
’’ سر میں نے بہت سوچ کر یہ فیصلہ کیا ، کیسے ہوگا ، یہ بھی میں اب سمجھتا ہوں اور میں آج ہی سے بدلہ لینے کا آ غاز کر رہاہوں۔‘‘ اس نے یوں کہا ، وہ اب کسی کی بات بھی نہیں ماننا نہیں چاہ رہا ہو۔ میرے دماغ میں ایک دم سے کئی ایسے خیال گردش کرنے لگے ، جو بہت خطرناک بھی ہو سکتے تھے ۔تبھی میں نے تحمل سے پوچھا
’’ پھر بھی بیٹا، مجھے تو بتاؤ، شاید میں تمہاری مدد کر سکوں۔‘‘
’’ سر آپ تو ہماری بہت مدد کر رہے ہیں، میں ہی نادان تھا کہ سمجھ نہیں سکا تھا۔‘‘ اس نے کہا، پھر شاید اسے میرے چہرے پر پھیلی بے چارگی کر کہا،’’ سر فرض کریں یہی دہشت گعد میرے اسکول میں آ جاتے ، اور یہی کچھ کرتے تو کیا ہوتا۔ آج میرے کئی کلاس فیلو میرے ساتھ نہ ہوتے ، یا میں ان کے ساتھ نہ ہوتا۔ میرے والدین پر کیا گذرتی ۔ وہ باپ جو مجھے ڈاکٹر بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا ہوتا ان سب کا؟میں جانتا ہوں کہ میں ابھی بہت چھوٹا ہوں ۔ میں گن لے کر انہیں مارنے کے لئے نہیں نکلوں گا۔‘‘
’’ تو پھر کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا
’’ میں اپنے فرض کو پہچان گیا ہوں سر، وقت آ گیا ہے کہ سبھی اپنے فرض کو پہچان جائیں۔ ایک طالب علم ہونے کے ناطے تمام فضولیات کو چھوڑ کر میرا پہلا فرض یہ ہے کہ میں پڑھوں۔ میرا علم حاصل کرنا ہی ، ان دہشت گردوں سے بدلہ لینا ہے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستانی قوم پڑھے اور میں ان درندوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم پڑھیں گے، اتنا پڑھیں گے کہ ان دہشت گردوں کی سوچ تک مار دیں گے۔‘‘ اس نے اس قدر پر عزم اور مضبوط لہجے میں کہا کہ میرا حوصلہ جوان ہو گیا۔
’’ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ڈر جائیں، ہم نہیں ڈریں گے۔ یہی ہمارا ان سے بدلہ ہے۔ ہم انہیں ڈرائیں گے۔ اپنے ارد گرد ان لوگوں پر نظر رکھیں گے جو بے غیرت دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔‘‘
’’ بیٹا پہلی بات تو ٹھیک ہے ، لیکن جب تم ادھر ادھر دیکھو گے تو تمہاری توجہ بٹ جائے گی۔‘‘ میں نے کہا تو وہ بولا
’’ نہیں سر۔! جب میں پڑھوں گا ، اچھے مارکس لوں گا تو دہشت گردوں سے ہمددری رکھنے والے سہولت کار کسی کو آ لہ نہیں بنا پائیں گے۔ وہ ڈریں گے ہم سے۔‘‘
’’ یہ تمہارا بہت اچھا فیصلہ ہے کہ تم علم حاصل کرکے ان دہشت گردوں سے بدلو گے۔‘‘
’’ جی سر ، میں اپنی ساری صلاحتیں اپنے وطن کی ترقی اور اسے مضبوط بنانے پر لگاؤں گا تو بھی میں ان دہشت گردوں سے بدلہ لوں گا۔ جو نہیں چاہتے کہ میرا ملک پاکستان مضبوط ہو۔‘‘ اس نے پھر بے خوفی سے کہا ۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ اتنی باتیں یہ بچہ سوچ سکتا ہے؟
’’ کیا یہ فیصلہ تم نے اکیلے ہی کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا
’’رات میں نے اپنی امی سے بہت باتیں کیں۔ انہوں نے مجھے اپنی گود میں لے کر بہت پیار کیا تھا۔ میں ان کا پیار رائگاں نہیں جانے دوں گا۔ میں اب کسی ماں کو نہیں رونے دوں گا۔‘‘
’’ ہاں بیٹا۔! تم خوب پڑھو، لکھو اور باصلاحیت بن کر اپنے والدین اور اپنے ملکی کی تعمیر و ترقی میں لگ جاؤ ، یہی ان دہشت گردوں کی سفاکی کا جواب ہے ۔ ان کی گھٹیا اور گھناؤنی سوچ کو دفن کرنے کا زبردست بدلہ ہے۔‘تم اپنے والد صاحب کے خواب پورے کرو، وہ تمہیں داکٹر دیکھناچاہتے ہیں۔‘‘ میں نے اس کا ارادہ دیکھ کر بڑے حوصلے اور مان سے کہا
’’ نہیں سر۔! میں نے اب ڈاکٹر نہیں بننا؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
’’ تو پھر کیا بننا ہے؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا
’’ میں نے فوجی بننا ہے، آرمی آفیسر۔‘‘
’’ یہ کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا
’’ میں نے ان دہشت گردوں سے بدلہ لینا ہے۔ اب کسی ماں کو نہیں رونے دینا ہے،اور سر ، یہ بات میرے ابو نے بھی مان لی ہے۔ اب آپ کو مجھ سے کبھی شکائیت نہیں ہوگی۔‘‘
وہ کہہ رہا تھا اور میرا حوصلہ بلند ہو رہا تھا۔ میں نئی نسل سے پر امید ہوگیا۔
’’ سر جاؤں؟‘‘ اس نے مجھ سے اجازت چاہی ،تو میں اسے سے ہلا کر جانے کی اجازت دے دی۔ اس بچے نے مجھے پھر سے جوان بنا دیا۔ یہ سانحہ جہاں پوری قوم کو یکجا کر گیا تھا، وہاں ایک نئی نسل تیار کر گیا۔ بے شک شہیدوں کا لہو اللہ پاک کے ہاں قبولیت رکھتا ہے ۔ اور میرے وطن کی بنیادوں میں شھیدوں کا خون ہے۔ جو اب بول اٹھا ہے۔
وہ آنسو، جو رات سے تھم نہیں رہے تھے، یوں لگا جیسے میری آ نکھوں میں حوصلے کی ٹھنڈک اتر آ ئی ہے۔ زخموں پر عزم کا مرہم رکھا گیا۔ میں ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ کلاس روم کی جانب چل پڑا۔

جمعرات، 22 جنوری، 2015

مصروف پیار میں رہا اس کا فراغِ دل ۔۔ سبیلہ انعام صدیقی

سبیلہ انعام صدیقی
کس کو بتاتے کس سے چھپاتے سراغ ِ دل
چپ سادھ لی ہے ،زخم دکھایا نہ داغِ دل
کیسے کروں بیان غمِ جاں کی داستاں
اے کاش گل کھلائے کو ئی میرا با غ ِدل
گزرے ہماری زیست کے ایام اس طرح
لبریز آ نسو ؤ ں سے ہے گو یا ایا غ ِدل
جب راکھ بن گئے تو کہا یہ حریف نے
جل جل کے وہ جلاتے رہے ہیں چراغِ دل
جس سے ملے طویل زمانہ گزر گیا
شا ید اسی کے ذہن میں ہو کچھ سرا غ ِدل
چاہت کی اب تو کوئی بھی حسرت نہیں رہی
سرسبز اس کی یاد سے پھر بھی ہے باغِ دل
رکھتی نہیں سبیلہ کبھی عیب پر نظر
مصروف پیار میں رہا اس کا فراغِ دل

جمعہ، 16 جنوری، 2015

پانیوں میں موجہ ہاے مضطرِب کا جَل ترنگ ۔۔ ڈاکٹر سعادت سعید

ڈاکٹر سعادت سعید
رونقوں کے ساتھ غائب ہو گئے راحت کے رنگ
ساحلوں کی دھوپ پر رینگے دساور کے نہنگ
دور دیسوں کے یہ موذی ماس خوری میں سند 
ہم نشینوں سے بھی ان کی مستقل رہتی ہے جنگ
کوئی کن رس اِس قدر احمق نہیں سننے کو جائے 
پانیوں میں موجہ ہاے مضطرِب کا جَل ترنگ
طائروں کی ٹولیاں بھی سونگھ کر خطرے کی بو
تیرتی دیکھی نہیں ہیں خوش نما لہروں کے سنگ
نیل گوں بحروں کے حسنِ پُر فسوں کی خیر ہو 
لَوٹ کر آئیں گے اک دن زائرانِ شوخ و شَنگ
ساکنانِ ارض کو درکار ہیں ساکن بحور 
مستقل مدّ و جزر ہے ماہِ تاباں کی امنگ
ماہی گیروں کے مقابل مَوت رہتی ہے سدا 
اس سے سیکھے ہیں انہوں نے مچھلیوں کے رنگ ڈھنگ

جمعرات، 8 جنوری، 2015

میں کچھ ہٹ کر سوچ رہا ہوں ۔۔ سحرتاب رومانی

سحرتاب رومانی
تیرا پیکر سوچ رہا ہوں 
دلکش منظر سوچ رہا ہوں
جس کو یکسر بھول چکا تھا 
اس کو اکثر سوچ رہا ہوں
گھر سے باہر یاد نہیں تھا 
گھر میں آ کر سوچ رہا ہوں
تم یہ دنیا دیکھ رہے ہو 
اور میں محشر سوچ رہا ہوں
شہر_ گل میں تیز ہوا اور 
تتلی کے پر سوچ رہا ہوں
میرے گھر میں ایک دیا ہے 
ماہ و اختر سوچ رہا ہوں
میری خو ھے نرم مزاجی 
پھر بھی پتھر سوچ رہا ہوں
جانے کیسے ٹوٹ گیا پھر 
سارا لشکر سوچ رہا ہوں
قسمت میں تو خاک لکھی  ہے 
لعل و گوہر سوچ رہا ہوں
بھر دے اب تو جام مرا بھی 
خالی ساغر سوچ رہا ہوں
سارا کچھ ہےایک طرح کا 
میں کچھ ہٹ کر سوچ رہا ہوں

رابعہ بتول کے شعری مجموعےِ، سحر تک دیپ جلنا ہے،، پر ایم زیڈ کنول کا تبصرہ

محبت اوراُمیدکی شاعرہ۔رابعہ بتول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابعہ بتول اردو شاعری کا وہ ستارا ہے جو میانوالی کے افق سے طلوع ہو کر چار دانگِ عالم  کو اپنی روشنی سے منور کر رہا ہے  وہ خامشی  کی زبان لئے، حیران آنکھوں اور ساگرِ دل میں برپا تلاطم لئے امید کے سفر پر گامزن ہے۔اس ایمانِ کامل کے ساتھ کہ وہ جو شجرِ بوسیدہ پہ بھی ثمرلگانے اور سیپ میں آبِ نیساں کو  گہربنانے پر قادر ہے،جو حسنِ عیاں بھی ہے اور سرِ نہاں بھی،وہ اس کی خوابوں کی شاخِ بریدہ  
کو سبز موسم  موسموں سے آشنا کرکے اس کے     گلِ رعنا میں نئی کونپلیں کھلا کے نئے موسموں  میں خوشبوؤں کے رنگ  ضرور بکھیرے گا۔وہ اپنے دلِ مضطر  کو بھی اس امر کا یقین دلاتے ہوئے کہتی ہے۔
دعائیں پر اثر ہوں گی،صدائیں باثمر ہوں گی
نہ گھبراؤ دلِ مضطر کہ آہیں کارگر ہوں گی
رابعہ محبت اور امید کی شاعرہ ہے۔ دینا میں پرپا ہوتی کشاکش، نفرتیں، استحصال اور سماجی نا انصافی کو اپنے چاروں اور دیکھتی ہے تو اس کا محبت بھرا دل  ایک لمحے کو مضمحل ہو جاتا ہے خود سے سوال کرتی ہے کہ رستے کہاں گم ہو گئے ہیں؟جذبوں کی خوشبو سے جو خواب گندھے تھے، اشکوں کی تابش سے جوامیدوں کے جگنو  دل میں چمکتے تھے، کچھ چاندنی جیسے دیئے جو پلکوں پہ لرزتے تھے، وہ سب کہاں گُم ہو گئے؟یہ  یقین و بے یقینی کا سفر  اُسے آزردہ کرتا ہے  لیکن وہ دوسرے لمحے ایقان کی مشعل دل میں جلائے اپنی روشن آنکھوں اور کشادہ پیشانی کو مزید کشادہ کرتے ہوئے دعوتِ یقین دیتے  ہوئے یوں کہتی ہے۔
آؤ تجدیدِ آرزو کر لیں 
غنچہ ء گل کی جستجو کر لیں 
اس اندھیرے میں دم نہ گھٹ جائے
نورِ امید چارسو کر لیں 
اُسے یقین ہے ہے کہ تمنا کے سفر میں یہ کشٹ  اکارت نہیں جائے گا۔وہ لمحہ  ضرور آئے گا  جب اندر کی دنیا کی گھٹن اپنا  آپ  مٹا کے  تمام صداؤں کو معتبر کر دے گی۔ ایقان  کا  سفر اس نے عبادت کی طرح کیا ہے۔ ایک طویل عرصہ خود کو حالتِ عبادت میں رکھا ہے، تب کہیں جا کر اسے یہ امید ہوئی ہے کہ  ظلمتیں ضرور مٹیں گی۔وہ دیو جانس قلبی کی طرح اپنے ہا تھوں میں دیپ اٹھائے ظلمتوں کو ہرانے چلی ہے۔ اس کے ہاتھوں، اس کی آنکھوں اور دل میں دیپ روشن ہے، اس آس کے ساتھ کیصبح تک یہ جلتا رہے گا۔ کوئی طوفان، کوئی جھکڑ اس کا راستہ نہیں روک سکتا۔وہ کہتی ہے۔
خوابوں کو کسی طور بکھرنے نہیں دینا
                          جاں بخش سہاروں کو تم مرنے نہیں دینا
سحر تک دیپ جلنا ہے ،،  رابعہ کی طباعت سے آشنائی کی پہلی منزل ہے۔ اس میں نظموں کا چمنستان بھی ہے اور غزلوں کا آشیاں بھی، حمد باری تعالیٰ کا آستان بھی  ہے اور نعتِ رسول مقبول ﷺ کا گلستان بھی، نسائی جذبوں کا بلیدان بھی ہے ۔ 
سمجھنا چاہتے ہو تم اگر عورت کی قسمت کو
تو دل کی آنکھ سے تکنا کبھی کیکٹس کے پھولوں کو
یہاں ررشتوں اور جذبوں کے ساتھ محبتوں کی کہکشاں بھی ہے جہاں، ہر پھول لطافت، رفعت اور محبت کا امین ہے۔اپنی نظم Necessary Evil میں کہتی ہے۔
کسی کے ساتھ چلنے کو 
رفاقت کہہ نہیں سکتے
محبت کہہ نہیں سکتے 
اس لئے نظم وہ جو خواب ہیں میں  وہ گلاب جیسے خواب اپنی آنکھوں میں بسانے کی آرزو لئے ہوئے کہتی ہے۔
کبھی خوشبوؤں کے لباس میں 
کبھی التجاؤں کی سانس میں 
کبھی منزلوں کی ہیں آس میں 
وہ خواب ہیں جو گلا ب سے۔۔ 
یہی خواب تو ہیں جو  یہ آس دلاتے ہیں کہ
سحر تک دیپ جلنا ہے
ایم زیڈ کنولؔ۔۔

جمعرات، 1 جنوری، 2015

د عا ھے سا ل نو ، ہم سب کی امید و ں کو بر لا ئے ۔۔ انور زاہدی

انور زاہدی
  
 بہت سے ز خم ہیں تا ز ہ ا بھی
  یا د و ں کے ا س د ل میں
 ہو ا یخ بستہ ھے
 ا و ر بے ا ما ں مو سم
 ا بھی کچھ بھی نہیں ممکن
 کر یں کیا۔۔۔۔۔؟
   بس پرا نی یا د کے ز خموں کو چا ٹیں
 یا علا ج غم میں ر و ئیں ہم
 منا سب ھے یہی کہ سا ر ی یا د و ں کو
 ر کھیں د ل کے نہا ں خا نوں میں
 ۔پئیں سب آ نسو و ں کو مسکر ا کے
 ا و ر نئے ا ک عز م کو لے کر
 کہیں خو ش آ مد ید ا ے سا ل نو
 ا صو ل ز ند گی یہ ھے
 یہی منطق ھے ہستی کی
  نہیں تھے مختلف کچھ ر و ز و شب
 سقر ا ط ا و ر بقر ا ط کے با ہم
 گز ر تے تھے یہ د ن یو نہی
 یو نہی شب ر و ز کٹتے تھے
 گز ر تے ہیں یو نہی یہ ر و ز و شب ا ب بھی
 بر س آ تے ہیں جا تے ہیں
 د عا ھے آ نے و ا لا سا ل
 ۔ہم سب کے لئے
 خو شیا ں بکھیر ے
 ہو ا من کا سا ئیبا ں 
 ا و ر ر حمتیں لا ئے
  پُر ا نی رنجشیں نا بُو د ہو ں
 سر شا ر ہو ہر د ل
  محبت کے شگو فو ں سے
 د عا ھے سا ل نو
 ہم سب کی امید و ں کو بر لا ئے۔