ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

پیر، 16 مارچ، 2015

اردو زبان

ساحل فخر
میں اس وقت جزل بس اسٹینڈ سے تانگہ پر سواریاں بیھٹا کر مینار _ پاکستان کے قریب سے گزار کر یاد گار چوک کراس کر رہا تھا جب ایک ضعیف شخص نے تانگہ روکنے کا اشارہ کیا میں نے گھوڑے کی لگام کھینچی تانگہ روکتے روکتے دو قدم آگے جا روکا ضعیف شخص ہاتھ میں تھامی لاٹھی نما لکڑی کے سہارے چلتا ہوا میرے قریب آیا گویا ہوا "بیٹا مجھے نسبت روڈ پر جانا ہے کتنا کرایہ لو گے" ضعیف کا لہجہ پر اعتماد تھا مگر اس پر اعتماد لہجہ کے سمندر میں اداسی کی لہر محسوس کی جا سکتی تھی میں کہا "بابا جی ویسے تو میں کرایہ آٹھ روپے لیتا ہوں آپ بزرگ آدمی ہیں جو دل چاہیے دے دیجۓ گا" ضعیف اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو چند سکوں کے ساتھ ایک ورق موجود تھا سکے گن کر کہا "بیٹا میرے پاس پانچ روپے ہیں" میں نے مسکراتے ہوۓ کہا "ٹھیک ہے بابا جی آئیے بیٹھ جائیں" ضعیف "جیتے رہو بیٹا" یہ کہتے ہوۓ تانگہ پر چڑھ کر بیٹھ گیا میں نے گھوڑے کی لگام کو جہنجھوڑا گھوڑا ہنہنایا اور گھوڑے کو پیشاب آ گیا کچھ لمحے انتظار کے بعد میں سواریوں کو لے کر انار کلی بازار کی طرف رواں دواں تھا انار کلی بازار پر ضعیف کے سوا سب سواریاں اتر گئیں ان سے کرایہ وصول کرنے بعد گھوڑے کی لگام کو جہنجھوڑا اور نسبت روڈ کی طرف چل پڑا اس دوران ضعیف نے پوچھا "بیٹا تم کچھ پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہو" میں نے کہا "بابا جی میں پڑھا لکھا نہیں ہوں اگر پڑھا لکھا ہوتا تو تانگہ نہ چلا رہا ہوتا" ضعیف کچھ حیران دیکھائی دیے پھر کہا "بیٹا آپ کا لہجہ انداز _ بیان شاعرانہ جیسا ہے کہیں تم شاعر تو نہیں ؟ " میں مسکرا دیا گویا ہوا "کبھی کبھی پاک ٹی ہاؤس چلا جاتا ہوں چاۓ بھی پیتا ہوں اور شعراء ادیب سے گفتگو بھی ہو جاتی ہے کبھی کبھی ناصر کاظمی مل جاتے ہیں ان کے اصرار پر تانگے پر بیٹھا کر لاہور کے سڑکوں پر سیر کرواتا ہوں اور وہ پیچھے بیٹھ کر لال ٹین جلا کر کچھ لکھتے رہتے ہیں اس دوران کئی انوکھی باتیں بھی کرتے ہیں شاید ان شعراء و ادیبوں کی رفاقت کا فیض ہے آپ کو ایسا محسوس ہو رہا ہے" ضعیف کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ پھیلتی دیکھی کہنے لگے "یہ اردو زبان کا فیض ہے کہ یہ دلوں پر راج کرتی آ رہی ہے مگر بیٹا افسوس کی بات ہے پاکستان کی قومی زبان اردو آئین کے مطابق اب تک سرکاری و پرائیوٹ دفاتر و سکول گویا کسی بھی سطح پر نافذ نہیں ہوئی حکمران تو حکمران رہے ہم عوام کو بھی ابھی احساس نہیں ہوا کہ ہر سطح پر اردو نافذ ہونے پر پاکستان کا پاکستان کے ہر باشندے کا کتنا فائدہ ہو گا یہی تو ظلم ہے کہ نہ عوام میں شعور اجاگر ہوتا ہے کہ اپنا حق مانگیں اپنی مادری زبان اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کریں اور نہ ہی کچھ شیطانی طاقتیں چاہتیں ہیں کہ پاکستان میں پاکستان کی قومی زبان اردو نافذ ہو تم کیا سمجھتے ہو انگریز یہاں سے چلا گیا ہے ؟ نہیں بیٹا گورے اب بھی پاکستان کو کئی ٹکڑوں میں بٹتے ٹوٹتا دیکھنا چاہتے ہیں کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں پاکستان کی قومی زبان اردو کو وقعت کیا جا رہا ہے قومی زبان اردو کی بجاۓ انگلش زبان مسلط کی جا رہی ہے ، بیٹا کیا میں غلط تو نہیں کہہ رہا ؟ " نہیں بابا جی آپ سولہ آنے سچ کہہ رہے ہیں میں نے کہا ، ضعیف دوبارہ گفتگو کو جوڑتے ہوۓ کہا " میں گزشتہ دو برس سے 'تحریک اردو' نامی تحریک چلا رہا ہوں ہر ہفتہ 'زمیندار' اخبار میں 'تحریک اردو' کے عنوان سے میرا کالم شائع ہوتا ہے یہ سب قومی زبان کے لۓ کر رہا ہوں اس میں اپنا نہیں پاکستان کا فائدہ ہے آج اگر سب شعراء ادیب متحد ہو جائیں اور صرف اور صرف اردو زبان کے نافذ کرنے کے لۓ کالم ، مضمون ، شاعری ، تخلیق کریں تو میرا ایمان ہے کہ وہ دن دور نہیں رہیں گے جب پاکستان میں ہر سطح پر اردو نفاذ ہو گی اور پاکستان ترقی کے راہوں پر مزگان ہو گا ، میں نے کہا بابا جی میں تو ان پڑھ ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں واقعی قومی زبان نافذ ہونا چاہیے ، ضعیف جیب میں ہاتھ ڈال کر ورق نکالا اور کہا یہ کالم لکھا ہے جسے صرف اور صرف 'زمیندار' اخبار ہی شائع کر سکتا ہے یہ 'زمیندار' کے دفتر دینے جا رہا تھا لو میری منزل بھی قریب آ گئی بیٹا تم سے باتیں کر کے بہت اچھا لگا یہ کہتے ہوۓ جیب میں ہاتھ ڈال کر چند سکے نکالے اور میرے ہاتھ پر رکھ کر تانگہ سے اتر گۓ میں ضعیف کے جذبات سے بہت متاثر ہوا تھا اس لۓ ضعیف سے ان کا نام پوچھنے میں کوئی مضائقہ نہیں جانا میں نے کہا بابا جی اپنا نام تو بتاتے جائیں ضعیف روک کے مجھے دیکھنے لگے اور پھر یہ کہتے ہوۓ چل پڑے " میں اسی قائد کے خاندان کا فرد ہوں جس نے پاکستان بنایا ہے" اور میں عالم حیرت میں منہ کھولے انہیں جاتا ہوا دیکھ رہا تھا . . . . . ! 

ہفتہ، 14 مارچ، 2015

ادا جعفری کرگئیں سوگوار ۔۔ احمد علی برقی اعظمی



ادا جعفری کرگئیں سوگوار
تھیں دنیائے اردو میں جو باوقار
یکایک خزاں آشنا ہوگئی
گلستانِ شعر و ادب کی بہار
ہے وردِ زباں ”شہر در شہر“ آج
جو عصری ادب کا ہے اک شاہکار
ہے غزلوں سے ان کی عیاں روح عصر
ہے نظموں سے سوزِ دروں آشکار
ملا تھا انھیں تمغہِ امتیاز
یہ اعزاز ہے باعثِ افتخار
تھا خاتونِ اول بھی ان کا خطاب
تھیں اس عہد کی شاعرہ نامدار
ہے برقیؔ وہ اب مثل ماتم کدہ
تھی بزمِ ادب اُن سے جو سازگار
احمد علی برقی اعظمی

جمعہ، 13 مارچ، 2015

انا للہ وانا الیہ راجعون ! اردو کی معروف و معتبر شاعرہ محترمہ ادا جعفری انتقال کر گئیں


انا للہ وانا الیہ راجعون !
اردو کی معروف و معتبر شاعرہ محترمہ ادا جعفری اب ہم میں نہیں رہیں۔مرحومہ اردو شاعری کا ایک معتبر حوالہ تھیں ان کے اس دنیا سے کوچ کر جانے سے یقینا اردو شعر و ادب کی دنیا میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔
ادا جعفری 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا اصل نام عزیز جہاں ہے۔ ادا تین سال کی تھیں جب انکے والد مولوی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انکی پرورش اپنے ننھیال میں ہوئی۔
ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی اور وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اُس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی جس کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہیں ۔
ادا جعفری کے شعری سفر کا باقاعدہ آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا اور وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں۔ انکا شمار موجودہ دور کے صفِ اول کے معتبر شعراء میں ہوتا ہے۔ انکی شاعری میں شعورِ حیات اور دل آویزی، حرف و صورت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی موجود ہے۔
ادا صاحبہ کے مجموعہ ہائے کلام میں "شہرِ درد، میں ساز ڈھونڈتی رہی اور غزالاں تم تو واقف ہو" شامل ہیں۔ اُنکی کلیات کا مجموعہ "موسم موسم" کے نام سے 2002ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے اپنی خود نوشت "جو رہی بے خبری رہی" کے نام سے تحریر کی۔ ادا جعفری نے جاپانی صنفِ سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ " سازِ سخن بہانہ ہے" ان کی ہائیکو کا مجموعہ ہے۔
ان کے شعری مجموعے "شہر ِدرد" کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ 1991ء میں حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغۂ امتیاز سے نوازا۔  
ادا جعفری کی تصانیف
میں ساز ڈھونڈتی رہی (شاعری)
شہر درد (شاعری)
غزالاںتم توواقف ہو (شاعری)
ساز سخن بہانہ ہے (شاعری)
موسم موسم (کلیات2002ء)
جو رہی سو بے خبری رہی ( خود نوشت)