ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

ہفتہ، 10 اکتوبر، 2015

رہِ سلوک کا مسافر۔۔۔۔ڈاکٹر فہیم رضاچشتی الکاظمی ..ایم زیڈ کنول

تصوف اور روحانیت لازم و ملزوم ہیں۔تصوف کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانیت کی۔جب جب انسانی قدریں پامال ہوئیں،کوئی صوفی، کوئی ولی اللہ ،کوئی اوتار، کوئی صاحبِ طریقت و صاحبِ شریعت ، ن قدروں کو بچانے کے لئے نجات دہندہ بن کے آ گیا۔ ان کا مذہب بھی انسانیت اور سوچ و فکر بھی ہر قسم کے تعصب سے عاری تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہر مذہب اور ملت کے لوگ ان کے حلقۂ اراد ت میں شامل ہوتے اور چشمۂ فیض سے سیراب ہوتے۔ عام پسے ہوئے،استحصال زدہ لوگ تو ایک طرف بڑے بڑے بادشاہ بھی ان کے آستانے پر سر جھکاتے رہے اور کسبِ فیض حا صل کرتے رہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام صحرائے عرب سے نکل کر سرزمینِ کُفوستان تک کو اپنی روشن کرنوں کے ہالے میں لے کر ظلمتوں کو سبق سکھانے لگا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان آستانوں سے لَو لگائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فہیم رضا کاظمی بھی انہی خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں ۔ آج کے نفسا نفسی، بیگانگی،اور خود غرض معاشرے میں وہ ان بزرگانِ دین کے راستے کو اپنا کر محبت، خلوص،امن اور علمیت کی مشعل تھام کر ظلمتوں سے برسرِ پیکار ہیں۔ اس نوجوانی کی عمر میں ، آج کے بگڑے معاشرے میں وہ تصوف و روحانیت کی عبا پہنے اپنی جستجوئے شوق اور جنون کو مہمیز دینے میں مصروفِ عمل ہیں۔ ذاتی زندگی سے لے کرمعاشرتی زندگی تک تو یہ جذبۂ جنون تھا ہی انھوں نے ادبی زندگی کو بھی اسی کے لئے وقف کر دیا ہے۔ شاعری ہو یا نثر وہ تصوف و روحانیت کا شہ پارہ ہے۔ مدح محمدﷺ و آلِ محمدﷺ ان کی شاعری کا مرغوب موضوع ہے۔ اقبالیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ غزل کہنے پر عبور حاصل ہے لیکن طبیعت اس طرف مائل ہوتی ہی نہیں۔ کسقدر خوش نصیبی کی بات ہے کہ اپلِبیت ؑ کی محبت انہیں اپنے حصار سے نکلنے ہی نہیں دیتی۔سید زادہ کا قلم اُٹھتا ہے تو اپنے بزرگوں سے محبت کا قرض چکانے کے لئے۔ یہ سعادت ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ روضۃ الاقطاب اُن کے ذوقِ تحقیق پر پڑاؤ کی دوسری منزل ہے ۔ اس سے قبل سلطان الہند جیسی معرکہ آراتصنیف کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کروا چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے ڈاکٹر فہیم رضٖا چشتی نے ساگرِ تصوف میں اترنے کے لیے سب سے پہلے جس موج کا انتخا ب کیاوہ حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری قدس اللہ سرہ جیسی جیدہستی ہیں جنہوں نے سرزمینِ ہندوستان پر اسلام کا بول بالا کیا۔ ان کے مریدین کا کوئی حساب نہیں۔ ۔ حضرت خواجہ بختیار کاکی ؒ بھی اسی ساگر سے وابستہ موج ہے۔ کتاب راحت المحبین کے مطابق حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا دستور و معمول تھا کہ ہر روز بائیس آدمی مرید کرتے تھے اور اس گروہ کو نصیحت فرماتے تھے کہ اپنا دامن بادشاہوں اور اہل دولت سے بچاتے رہو۔ اگر دنیا کی ہوس و طلبگاروں سے اپنا دامن نہ بچا پائے تو سیدھے راستے اور راہنمائی سے محروم رہو گے۔ آپؒ کی ذات گرامی کی برکت اور فیض تھا کہ آپؒ جس کو جس بات کی تاکید فرماتے وہ اس پر عمل کرتا تھا (راحت المحبین )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتاب ’’دلیل العارفین‘‘ کے مطابق جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ بغداد سے دہلی تشریف لائے تو سلطان شمس الدین آپؒ کے دہلی میں قدم رنجہ فرمانے پر سجدہ شکر بجا لایا اور آپؒ سے درخواست کی کہ آپ شہر میں جا کر التمش کے فراہم کردہ مقام پرٹھہریں ، لیکن آپ ؒ نے مصلحت الٰہی سلطان کی ا س پیشکش کو قبول نہیں فرمایا اور دلی شہر کے مضافاتی علاقہ ’’موضع کیلوکہڑی‘‘ میں قیام فرمایا۔ یہاں پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔ آپؒ کچھ عرصہ اس مقام پر ٹھہرے رہے۔ آپؒ کی شہرت کا چرچا دہلی کے علاوہ ہندوستان کے دیگر علاقوں تک پھیل چکا تھا۔ آپؒ کی دہلی تشریف آوری کی خبر سن کر ’’شیخ الاسلام دہلی مولانا جمال الدین احمد بسطامی‘‘ (جن کی ملفوظات پیرانِ چشت میں جا بجا تعریف و توصیف بیان ہوئی ہے)حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی ملاقات کے لیے حاضر ہوئے او رپہلی ہی ملاقات میں آپؒ کے معتقد ہوگئے ۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ نے شیخ الاسلام پر الفت فرمائی۔ دہلی کی رہائش گاہ سے آپؒ کے گھر کا فاصلہ پانچ کوس کی مسافت پر تھا، لیکن اس کے باوجود بادشاہ ہفتہ میں دو بارہ آپؒ کی خدمت میں حاضری دیتا۔
آپ کی کرامات کے بوصف آپکو کاکی کہا جا تا تھا۔محمد بولاق’’ کاکی‘‘ کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔
’’جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کے گھر میں فقر و فاقہ کا دور تھا۔ ایک بار تین دن مسلسل فاقے لگے تو حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کے گھر کی کسی بی بی نے شرف الدین بقال (سبزی فروش /دوکاندار)کی بی بی سے قرض لے لیا(اکثر بوقت اشدضرورت شرف الدین کے گھر سے قرض لے لیا جاتا تھا) ۔ ایک دن قرض لینے کے موقع پر شرف الدین بقال کی بیوی نے متکبرانہ انداز میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کی بیوی سے کہا۔’’ اگر ہم تمہارے پڑوس میں نہ رہتے تو تم لوگ پھر کہا ں سے کھاتے؟؟‘‘
جب یہ بات حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ تک پہنچی تو آپؒ نے اپنی بیوی صاحبہ کو ان لوگوں سے قرض لینے سے کلیتاً منع کر دیا اور اپنے کمرہ میں موجود ایک طاق کے طرف اشارہ کرکے فرمایا ۔
’’ جس وقت آپ کوکوئی چیز ضرورت ہو تو بسم اللہ شریف پڑھ کر حسب ضرورت طاق میں ہاتھ ڈال کر لے لیا کرو‘‘۔
اس دن کے بعد آپ ؒ کی اہلیہ محترمہ جس وقت طاق میں ہاتھ ڈالتیں توکاک(روٹی) گرم پاتیں اور بہت عرصہ تک آپؒ کے گھر کی ضرورتیں اس طاق سے پوری ہوتی رہیں
۔ علاوہ ازیں’’ کتا ب سیر الاولیاء‘‘ میں مذکور ہے کہ
آپؒ کے مصلے کے نیچے سے وافرمقدار میں کاک(روٹیاں) نکلتے تھے۔ اس وجہ سے بھی آپؒ کو کاکی کہا جانے لگا۔‘‘
ایک دن حضرت امیر خسرو حضرت سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت پانے پر آپؒ سے عرض کیا ۔’’ حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کو ’’ کاکی‘‘ کس وجہ سے کہتے ہیں؟‘‘سلطان المشائخ نے فرمایا۔
’’حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ اکثر حوضِ شمسی پر بیٹھے غوروفکر میں ڈوبے رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور آپؒ کے احباب و دوستوں نے آپؒ سے عرض کیا:’’ خواجہ صاحب! ایسی ٹھنڈی ہوا میں اگر گرم کاک (روٹی) مل جاتے تو کتنا ہی اچھا ہو‘‘۔آپؒ نے استفسار کیا۔ ’’ اس کا کیا کرو گے؟‘‘عرض کیاگیا: ’’ کام میں لائیں گے‘‘ (یعنی کھائیں گے)
پس حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ اٹھ کر تالاب کے پاس گئے اور پانی سے گرم کاک(روٹیاں) نکال کر دوستوں کے حوالے کیں۔ اس دن کے بعد دوستوں اور احباب نے آپؒ کو’’ کاکی‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ (کتاب افضل الفوائد)
ان بزرگوں کے احوال و معجزنمائی پر جو کتب مرتب ہوئیں افسوس کا مقام ہے کہ وہ زمانے کی دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ اس ساگر تک وہی پہنچ سکتا ہے جوتہہ تک اُترنے کے ہنر سے آشنا ہو۔ اس ہنر سےُ آشنا اور موجِ طریقت تک پہنچنے کے رموز سے آشنا سلسلہ چشتیہ ہی کے پیش رو محمد بولاق ، ہمشیر زادہ خواجہ نظام الدین اولیاء ’’جو مغل بادشاہ محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر کے مقرب اور منظو رِنظر تھے ‘‘نے اس کتاب میں قطب الاسلام حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ قدس اللہ سرہٗ کا احوال اور ان بزرگان کا احوال ہے، جوحضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار شریف کے قرب و جوار میں محو استراحت ہیں۔ اس نسبت سے اس کتاب کا نام محترم ’’محمدبلاق‘‘ نے ’’روضۃ الاقطاب‘‘ رکھا۔
نام تاریخ این خجۃ کتاب
وہ چہ زیباست روضہ اقطاب
محترم محمد بولاق نے اول اول اس بحرِ غواص سے موتی چننے کی سعی میں سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں کے احوال پر مشتمل گہر ریزے اس طور سمیٹے، اس میں تصوف کے نگینوں کی لڑیاں اس طرح پروئیں کہ اس شجرہ عالیہ کا آغاز اگرچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے کیا ہے۔لیکن اس کے بعداپنا شجرہ جو رسول ؐ خدا سے شروع ہو کر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؑ پر منتج ہے، بھی رقم کیا ہے۔ انہوں نے یہ تصوف پارہ فارسی زبان میں تالیف کیا، ۱۔ اس کی اشاعت اول اور دوم فارسی میں تھی ، اشاعت اول کے ناشر، لالہ چرنجی لال ہندوستان تھے جبکہ اشاعت دوئم کے ناشر: جگن ناتھ مطبع ’’محب ہند‘‘ فیض بازار دہلی ہندوستان تھے۔ اشاعتِ سوم اردو میں آخری بار 1309ہجری دہلی میں طبع ہوئی او رآج ہندوستان و پاکستان میں یہ ناپید ہے۔اس کی اشاعت کی بابت جگن ناتھ یوں رقم طراز ہیں۔
’’قبل ازیں یہ کتاب دو مرتبہ فارسی زبان میں طباعت ہوئی۔ لالہ چرنجی لال مرحوم (مالک چھاپہ خانہ) نے بڑی تحقیق اور تفتیش سے اس کتاب کو حاصلکرکے خصوصی اہتمام سے چھپوایا۔ لالہ چرنجی لال(مرحوم) بزرگان دین اور اولیائے کرام سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور انہیں ہمیشہ اولیائے کرام کی کتب دیکھنے، چھاپنے چھپوانے کا شوق رہا ہے۔ لالہ چرنجی لال(مرحوم) کے بعد دوسری بار اس کمترین (جگن ناتھ) نے اس کتاب کو دوسری مرتبہ طباعت کروایا، لیکن اس اشاعت کے بعد جلد ہی اندازہ ہوا کہ فارسی زبان کے قارئین مسلسل کم ہو رہے ہیں اور شائقین زبانِ اردو کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ راقم مجبور ہوا کہ اس کتاب کو اردو میں ترجمہ کرواکے چھپوائے ۔۔۔۔۔۔ اس طرح اس دُرِ نایاب کا با محارہ اردو ترجمہ کروا کر اس پر نظر ثانی کی گئی اور پھر تیسری بار یہ کتاب اردو زبان میں شائع ہوئی تاکہ ہر خاص و عام اور اردو دان طبقہ بھی اس سے مستفید ہو سکے۔‘‘
جگن ناتھ نے جو کوشش کی وہ اس زمانے کے تشنگانِ علم ہی کے لئے تھی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ اردو زبان نے بہت سی تدریجی منازل طے کیں ۔ 1309ہجری میں لکھی جانے والی اردو بہت ثقیل، مشکل اور غیر مانوس ہیں۔ اس زمانے میں بولے جانے والے بیشتر الفاظ متروک ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا وہ آج کے زمانے میں قابلِ فہم نہیں۔ مبارکباد کے مستحق ہیں سید فہیم رضا چشتی اورسعادتوں کے اس سفر پر ان کی ہمراہی کی سعادت حاصل کرنے والے ، سید نوشاد کاظمی جنہوں نے اس نا فہم کو قابلِ فہم بنانے کی سعی میں اس بحرِ ذخار میں غواصی کا شرف حاصل کرنے کے لئے حضرت خواجہ بختیار کاکی کے احوال ،ان کے انتہائی باریک بینی سے مطالعہ کیا او رنظر ثانی کے بعد اسے آسان فہم اور مروجہ زبان کی خلعت ہی عطا نہیں کی بلکہ یہ کتاب جو پرانے وقتوں کی اردو کی نمائندہ تھی تھے اسے آج کے زمانے کی عام فہم اردو کا پیرہن عطا کر کے جدید اردو کے قالب میں ڈھالا۔ زیرِ نظر کتاب میں حضرت سید خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے شجرۂ نسب سے لے کر اُن نے بچپن کے احوال،اُن کی ہندوستان آمد اور دہلی میں قیام ،دہلی کا شیخ الاسلام اور اس کینہ پرور شیخ الاسلام کی 

ساز ش اور انجام شیخ جلال الدین تبریزی کا احوال او ارشاداتِ عالیہ جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
َََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر ایم زیڈ کنول
 چیف ایگزیکٹو، جگنو انٹرنیشنل،لاہور۔۔
ایڈیٹر ، احساس۔۔۔جرمنی