انور زاہدی |
موڑ پہ گلی کے اک گمشدہ کہانی تهی
ڈهونڈتا رہا جس کو عہد کیا جوانی تهی
تب کبهی نہ سوچا تها وقت ہوگا اک دریا
اب پتہ چلا جا کے وہ گهڑی تو فانی تهی
برف کہساروں پر اب کے اس قدر پگهلی
وقت اس طرح گزرا بات جیسے پانی تهی
یادیں بن گئیں باتیں عہد ہوگئے قصے
جو گزر گیا ہم میں وہ وفا پرانی تهی
عہد یاد اور قصے مت کهنگا لا کر انور
ٹیس بچ گئی باقی درد کی نشانی تهی