کچھ تو کم ہے تمہیں محبت بھی
بے رخی ہے تمہاری عادت بھی
نہ خدا مل سکا مجھے، نہ صنم
رائیگاں عشق بھی! عبادت بھی!
دامنِ دل میں کم نصیبوں کے
آتش_سوز_غم ہے! وحشت بھی!
لاکھ دامن بچایا میں نے لیکن
جان لے کر ٹلی محبت بھی
دین و ایمان بیچنا ہی پڑے
کفر تک لے چلی ہے عسرت بھی
ہے محبت کی دوسری صورت
اور کیا ہے بھلا یہ نفرت بھی!
تم ہوےء ہفت آسمان نشیں
ہے عجب شہ غرورِ شہرت بھی
ہے تعلق عجیب سا مجھ سے
تم کو الفت بھی ہے عداوت بھی
عاشقی ایک کار_لا حاصل
ہے مکیں دل میں تیری حسرت بھی
ہم کہ بیمار_عشق ہیں انجم
نہ ہوئی تم سے تو عیادت بھی