وہ ایک طوفانی رات تھی۔ موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔
زمین سے آسمان تک ایک پردہ سا تن گیا۔ لہریں ہوائوں کے رتھ پر سوار ہوئیں، جن کی زد میں آنے والا ایک بحری جہاز منوڑا کے ساحل پر پھنس گیا۔ حادثات کی اس دنیا میں امید کا اکلوتا سہارا ’’سگنل ٹاور‘‘ تھا، جہاں اس رات فقط ایک شخص موجود تھا۔ ایک شاعر!
لیاقت علی عاصم کو وہ رات اچھی طرح یاد ہے۔ وہ ٹاور پر تنہا تھے، اور ایک بھاری ذمے داری اُن پر آن پڑی۔ اُنھوں نے فوراً شپنگ آفس میں واقعے کی اطلاع پہنچائی۔ طوفانی بارش میں امدادی کارروائی کا آغاز ہوا۔ بالآخر صبح تک وہ جہاز نکال لیا گیا۔ جب صورت حال قابو میں آگئی، سمندر شانت ہوا، تب ایک شخص نے ان سے سوال کیا،’’کس کے بیٹے ہو؟‘‘ جواب میں اُنھوں نے اپنے والد، حاجی علی کا نام لیا، جو علاقے کی جانی مانی شخصیت تھے۔ پوچھنے والے نے کاندھا تھپتھپایا۔ ’’حاجی علی کا بیٹا ہی یہ کام کرسکتا تھا!‘‘ اُس پل کیا احساسات تھے، اِس کا اندازہ ایک بیٹا ہی لگا سکتا ہے۔