منافقوں کے شہر میں عداوتوں کے زہر میں
بدلنا ہے فضا کو اب خلوص و امن و مہر میں
نظر کو میری بها گیا وہ ایک سادہ بات سے
وفا کی ہی امنگ ہے یہ دل جلوں کے شہر میں
نہ ہمسفر نہ ہمنوا مگر مرا ہے مہرباں
وہی رفیق و رازداں حکایتوں کے قہر میں
رواں ہے بہتے پانی میں عجب سی قدرتِ خدا
کہ لمحہ لمحہ رونما ہے انقلاب نہر میں
ہے زیست اس مقام پر کہ ڈهونڈتی ہے خا مشی
مرا وجود کهو گیا ہے دل خراش جہر میں
سبیلہ میرے پاس صرف نعمت ِ خلوص ہے
محبتیں ہی بانٹتی ہوں میں نظام ِ دہر میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں