زارا مظہر |
نومبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تجھ سے کچھ کہنا ہے
کچھ امیدیں ہیں
کچھ خواہشیں ہیں
کچھ خواب ادھورے ہیں
اذّیت ہے ، وحشت ہے
ندامت ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ زخم ہیں
جنکی رفاقت ہے
اِک بے نیازی
تیری عادت ہے
درد بڑا بے درد ہے
یا شاید ہمدرد ہے
کچھ نشتر ہیں یادوں کے
کچھ دُکھ نارسائی کے
ہجر کی آ بلہ پائی کے
نیندوں کا دیس پرایا ہے
نومبر ۔ ۔ ۔ ۔
تو پھر لوٹ آ یا ہے
امید ہے نا آس ہے
کسک ہی کسک پاس ہے
رات کی خاموشی بھیگی سی ہے
پلکوں پہ نمی مستقل سی ہے
ہمراہ کچھ بے بسی ہے
چین ہے نا قرار ہے
نا خود پہ کچھ اختیار ہے
نا تو یاد کرتا ہے
نا ہم نے بھلایا ہے
نومبر ۔ ۔ ۔ ۔
تو ۔ ۔ ۔ ۔ پھر لوٹ آ یا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں