|
اشرف نقوی |
پہلے تو اپنی ذات سے مِنہا کیا مجھے
پھر اُس نے سارے شہر میں تنہا کیا مجھے
حیرت نے میری مجھ کو کیا آئینہ مثال
اور آئینہ بھی ٹُوٹنے والا کیا مجھے
ہاتھوں کے ساتھ ہی میری مٹی ہوئی خراب
کُوزہ گری کے شوق نے رُسوا کیا مجھے
میں بھی بھنور کی لہروں میں گُم ہو گیا کہیں
شدت نے میری پیاس کی ، دریا کیا مجھے
میں کہ تھا اپنی ذات میں اِک بحرِ بے کراں
لیکن غرورِ دشت نے صحرا کیا مجھے
پہلے مِری جدائی نے مجھ کو کیا نڈھال
پھر میرے ہی وصال نے اچھا کیا مجھے
جو اِس نگاہِ شوق میں تھی دید کی طلب
اُس نے کسی فقیر کا کاسہ کیا مجھے
یوں تو سمجھنا پہلے ہی مجھ کو محال تھا
اِک رازِ کُن نے اور بھی گہرا کیا مجھے
فکرِ معاش کھا گئی کچھ تو وجود کو
اور کچھ جنونِ عشق نے آدھا کیا مجھے
پیروں میں جو زمین تھی ، وہ سر پہ آ گئی
ماضی کا کوئی وقت نے قصّہ کیا مجھے
اشرف میں اِس زمین پہ ہوں نائبِ خدا
یونہی نہیں فرشتوں نے سجدہ کیا مجھے
اشرف نقوی