بارش ہوئی تو یاد نے سر پھر سے اُٹھایا
کیا شور تھا سوتے ہوئے محشر سے اُٹھایا
بُوندیں تھی برستی ہوئی یادوں کی طرح سے
بجلی کی کڑک ایسی کہ اک ڈر سے اُٹھایا
کل جاتے ہوئے اُس نے پلٹ کے مجھے دیکھا
پھر خواب میں جیسے کسی منظر سے اُٹھایا
لوگوں کے بھرے شھر میں تنہائی کا ڈر ہے
اس خوف نے خود مجھ کو مرے گھر سے اُٹھایا
اب مجھ کو نہیں علم کہ سویا ہوں یا جاگا
لگتا ہے کسی نے مجھے بستر سے اُٹھایا
یادوں کے سجے تاج محل میں تھا میں انور
اور تاج کو اک ہاتھ نے پھر سے اُٹھایا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں