صبیحہ صبا |
خوشی گاہے بگاہے اس دلِ ناشاد میں آئے
دلِ ویران بھی تو کوچہِ آباد میں آئے
یونہی سب قافلے بس جانب منزل روانہ ہیں
کوئی پہلے چلا جائے تو کوئی بعد میں آئے
خدا جانے ہمارے دل میں کیسے نرم گوشے ہیں
کوئی دشمن بھی کیوں اک ناگہاں افتاد میں آئے
وہ قصّہ آج بھی تازہ کسی انداز میں ہو گا
وہ سب کردار جیسے مجنوں و فرہاد میں آئے
یہ جذبے ہیں مگر اس میں بڑی بے اختیاری ہے
جو چہرہ بھولنا چاہوں وہی تو یاد میں آئے
ہزاروں سوچ کے مرکز ہزاروں فکر کے محور
خیال اس کا کبھی تو گوشہِ آزاد میں آئے
ریاضت اپنے فن میں ہم نے کر کے دیکھ لی شاید
ہمارے نام کا پرچم سخن آباد میں آئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں