ناصر ملک |
لکھتا ہوں مقدر کی ڈھلی شام پہ میں قتل
ہوتا ہوں یہاں تلخی ءِ ایام پہ میں قتل
مجرم کو رعایت کہ گواہوں کو خریدے
کیا خوب عدالت ہے کہ الزام پہ میں قتل
فرقوں میں بٹی قوم کے اصنام گنے تھے
اس جرمِ کبیرہ میں ہوا بام پہ میں قتل
اک تشنہ ملاقات کی بخشش ہی بہت ہے
ہوتا ہوں بہت سوچ کے اس دام پہ میں قتل
یہ اپنے تقاضوں کو بھی خاطر میں نہ لایا
اس عشق پہ قربان کہ ہر گام پہ میں قتل
مسلک کی کہانی بھی عجب طور کی دیکھی
آغاز پہ وہ قتل تو انجام پہ میں قتل
کذاب کے ہاتھوں سے کئی بار ہوا ہوں
اے زندہ و جاوید! ترے نام پہ میں قتل
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں