مجید اختر |
ایک الزام تھوڑی ہوتا ہے
مفت میں نام تھوڑی ہوتا ہے
اک نظر دیکھتے ہیں آ کے تجھے
تجھ سے کچھ کام تھوڑی ہوتا ہے
وقت ہوجائے گر میسّر بھی
وقت پر کام تھوڑی ہوتا ہے
پھول ہوتے ہیں میرے ہاتھوں میں
سنگِ دُشنام تھوڑی ہوتا ہے
یونہی بازار میں ٹہَلتے ہیں
جیب میں دام تھوڑی ہوتا ہے
جُبّہ سائی حرم کی کرتا ہوں
عزمِ دمّام تھوڑی ہوتا ہے
یہ جو اظہار تم سے کرتا ہوں
برسرِ عام تھوڑی ہوتا ہے
یہ سراسر ہے کارِ رسوائی
عشق میں نام تھوڑی ہوتا ہے
یوں ہر اک در پہ سر نہیں جھکتا
سب کا اکرام تھوڑی ہوتا ہے
وقت مِلنے پہ کر لیا جائے
عشق آرام تھوڑی ہوتا ہے
سَر بھی کٹتے ہیں بے سبب اب تو
سر پہ انعام تھوڑی ہوتا ہے
مست رکھتی ہے بس ولاے حبیب
ہاتھ میں جام تھوڑی ہوتا ہے
لوگ ناکام ہوں تو ہوں' اختر
عشق ناکام تھوڑی ہوتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں