رضیہ سبحان |
آئینے کی،سنگھار کی باتیں
کیا کریں حُسنِ یار کی باتیں
وصل کا ،ہجر میں تصور ہو
اور خزاں میں بہار کی باتیں
باعثِ کرب و اضطراری ہیں
اِس دلِ بیقرار کی باتیں
تشنگی زیست کی نہ بڑھ جائے
رہنے ہی دو خُمار کی باتیں
رنگ بھر تی ہیں زرد موسم میں
عارض و چشمِ یار کی باتیں
دیدہ و دل کا در کُھلا رکھیں
پھر کریں اختیارکی باتیں
موت کے در پہ دستکیں جیسی
شامِ غم ، انتظار کی باتیں
کرگئیں اپنے آپ سے شاکی
جشنِ گل میں شرار کی باتیں
حُسن کا امتحان ہوتا ہے
عشق میں اعتبار کی باتیں
آج تو زندگی کا محور ہیں
صرف پروردگار کی باتیں
سُبحان اللہ
جواب دیںحذف کریںرضیہ سبحان آپا خوش رہیں