ضیا حسین ضیا |
سفر میں قد کے برابر غبار اٹھتا تھا
وہ دن تھے ،ابر نہیں ،بس ،خمار اٹھتا تھا
گہے خود اپنی بھی تعظیم سے ہوئَے بیزار
گپے ہمارے لئے ہر مزار اٹھتا تھا
چراغ طاق نہیں ، سلوٹوں کی زنیت تھا
میں اپنی نیند سے جب شعلہ وار اٹھتا تھا
سمٹ کے ہم ترے سینے میں ہو گئے جمع
جو تیری موج سی بانہوں کا پیار اٹھتا تھا
کبھی تو جمع_ محبت کی یہ بھی شکل ہوئِی
مسیحا پوچھتا تھا ، انتشار اٹھتا تھا ؟
کبھی کلیجے پہ اک پھانس بھی صلیب رہی
کھی تو درد بھی سینے کے پار اٹھتا تھا
غبار پر تھا کسی اور گرد کا پہرہ
نگہ سے کب دل _ ماضی کا بار اٹھتا تھا
فلک کی ساری جوانی لٹا کے ہم لوٹے
کبھی تو ایسے بھی اک انتظار اٹھتا تھا
ہمیں تو یونہی لگا ، دل کا بیٹھنا تھا روگ
مگر نہ جان سکے ۔ اعتبار اٹھتا تھا
بہت عمدہ
جواب دیںحذف کریں