اعجاز گل |
تعلق اس کا اپنا درمیانہ چل رہا ہے
کہ آنے میں نہ آنے کا بہانہ چل رہا ہے
طوالت کھنچ رہی ہے آمد و رفتِ نفس کی
قیامِ مختصر کا آب و دانہ چل رہا ہے
کیا ظاہر نہیں خود کو ابھی پردہ نشیں نے تعارف ہر کسی کا غائبانہ چل رہا ہے
بہت اغلاط سے اپنی مَیں پسپا ہو رہا ہوں
کئی اسباب سے آگے زمانہ چل رہا ہے
دروں کیا ہے مخالف کے نہیں ملتی خبر کچھ
بظاہر سب کا سب سے دوستانہ چل رہا ہے
وہی ہے کام ہونے میں نہ ہونے کی رکاوٹ
کوئی لاحاصلی کا شاخسانہ چل رہا ہے
ابھی تحریر سے اپنی وہ ہے نا مطمئن سا
مجھے کاتب کا لکھنا اور مٹانا چل رہا ہے
نہیں کھلتا جدا ہوتا ہے بعدِ شام کیونکر
جو سایہ دھوپ میں شانہ بشانہ چل رہا ہے
شریک ہوتا نہیں ہے حسن بھی مشقِ سخن میں مزاج
اپنا ہھی ردِّ عاشقانہ چل رہا ہے
عجوبہ نقش ہیں یا دھات ہے نایاب اس کی
نئے بازار میں سکّہ پرانا چل رہا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں