رحمان فارس |
اِدھر اُدھر کہیں کوئی نشاں تو ہوگا ہی
یہ رازِ بوسۂ لب ہے، عیاں تو ہوگا ہی
تمام شہر جو دھندلا گیا تو حیرت کیوں ؟؟؟
دِلوں میں آگ لگی ہے ، دھواں تو ہوگا ہی
بروزِ حشر مِلے گا ضرور صبر کا پھل
یہاں تُو ہو نہ ہو میرا ، وہاں تو ہوگا ہی
یہ بات نفع پرستوں کو کون سمجھائے ؟؟
کہ کاروبارِ جنُوں میں زیاں تو ہوگا ہی
ہم اس اُمید پہ نکلے ہیں جھیل کی جانب
کہ چاند ہو نہ ہو ، آبِ رواں تو ہوگا ہی
مَیں کُڑھتا رھتا ہوں یہ سوچ کر کہ تیرے پاس
فُلاں بھی بیٹھا ہو شاید ، فُلاں تو ہوگا ہی
یہ بات مدرسۂ دل میں کھینچ لائی مجھے
کہ درس ہو کہ نہ ہو ، امتحاں تو ہوگا ہی
مگر وہ پھول کے مانند ہلکی پُھلکی ہے
سو اُس پہ عشق کا پتھر گراں تو ہوگا ہی
غزل کے روپ میں چمکے کہ آنکھ سے چھلکے
یہ اندرونے کا دکھہے ، بیاں تو ہوگا ہی
بڑی اُمیدیں لگا بیٹھے تھے سو اب فارس
ملالِ بے رخئ دوستاں تو ہو گا ہی
رحمان فارس
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں