دلپذیر بستی میں
دلنشین لوگوں کی
چاند رات مستی میں
رقص میں تھی رقاصہ
رقص تھا سر محفل
مثل گُل مہکتی تھی
رقص کر رہی تھی وہ
سحر سا فضا میں تھا
نُور کی کرن تھی وہ
ڈھول بج رہا تھا یوں
دل دھڑک رہا ہو جُوں
گھنگھرووں کی جھنکا ریں
چھُو رہی تھیں امبر کو
چاندنی کے جادو مین
مست ہو رہے تھے سب
دل مچل رہے تھے یوں
جذب کا ایک عالم تھا
سب سرُور میں تھے گُم
اک لمحے اُسے دیکھا
اک ستون سے لگ کر
رقص دیکھتی تھی وہ
اُس کی چشم مستانہ
بجلیاں گراتی تھیں
لوگ رقص میں گُم تھے
کھو گیا تھا میں اُس کی
مست مست آنکھوں میں
چاند رات مستی میں
دلنشین بستی میں
اُس کو دیکھ کر میں نے
چاند پھر نہیں دیکھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں