اوصاف شیخ |
ٹھہر گیا ہے ایک ہی منظر کمرے میں
میں تیری تصویر ، دسمبر کمرے میں
میں، تیری یادوں کی بارش ، تیز ہوا
تنہا بھیگ رہا ہے بستر کمرے میں
میں دریا کے پار کی سوچ رہا ہوں اور
در آیا ہے ایک سمندر کمرے میں
لے آئی ہے گلیوں میں اک آگ مجھے
چھوڑ آیا ہوں ٹھنڈا بستر کمرے میں
خوف زدہ ہیں گھر کی ساری دیواریں
ڈیرہ ڈالے بیٹھا ہے ڈر کمرے میں
کون خزاں میں پھول کھلانے آیا ہے
کس کی خوشبو ہے یہ بنجر کمرے میں
آنگن میں ہے جاری رقص ہواؤں کا
سہما بیٹھا ایک قلندر کمرے میں
آنگن میں ہے سونے پن کا راج اوصاف
چیخ رہی ہے تنہائی ہر کمرے میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں