ڈاکٹر سعادت سعید |
رونقوں کے ساتھ غائب ہو گئے راحت کے رنگ
ساحلوں کی دھوپ پر رینگے دساور کے نہنگ
دور دیسوں کے یہ موذی ماس خوری میں سند
ہم نشینوں سے بھی ان کی مستقل رہتی ہے جنگ
کوئی کن رس اِس قدر احمق نہیں سننے کو جائے
پانیوں میں موجہ ہاے مضطرِب کا جَل ترنگ
طائروں کی ٹولیاں بھی سونگھ کر خطرے کی بو
تیرتی دیکھی نہیں ہیں خوش نما لہروں کے سنگ
نیل گوں بحروں کے حسنِ پُر فسوں کی خیر ہو
لَوٹ کر آئیں گے اک دن زائرانِ شوخ و شَنگ
ساکنانِ ارض کو درکار ہیں ساکن بحور
مستقل مدّ و جزر ہے ماہِ تاباں کی امنگ
ماہی گیروں کے مقابل مَوت رہتی ہے سدا
اس سے سیکھے ہیں انہوں نے مچھلیوں کے رنگ ڈھنگ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں