کہا سچ ہے محبت کون کرتا ہے
کسی کی چاہ میں اب کون مرتا ہے
کبھی دریا کنارے شھہر بستے تھے
مگر اب شھہر سے دریا گزرتا ہے
رُتیں بیتیں جو جاں پہ کیا بتائیں
عذاب اک ہجر کا موسم گزرتا ہے
زرا دیکھو تو چہرے کیا ہوئے ہیں
ہر اک چہرے پہ موسم نقش کرتا ہے
فلک سے ٹُو ٹ کے گرتے ہیں تارے
کسی کھڑکی میں تارہ اک سنورتا ہے
لکھے گا کون اب میری کہانی
وہ قصہ خود کو روزانہ جو گھڑتا ہے
انور زاہدی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں