لیاقت علی عاصم |
چراغوں کی وحشت بڑھی جا رہی ہے
ہَوا تیز ہوتی چلی جا رہی ہے
یہ کون آ گیا ہے صفِ رنگ و بو میں
کہ فصل- محبت جلی جا رہی ہے
کسی شاخ کو آگ دینا ہے گویا
ہر اک شاخ کو آگ دی جا رہی ہے
بلا شہر کی کھا گئ کتنے صحرا
سمندر کی رنگت اُڑی جا رہی ہے
خلوص و محبت سے دامن چھڑا کر
نہ جانے کہاں زندگی جا رہی ہے
ابھی وقت ہے کوئ رستا نکالو
ابھی حبس میں سانس لی جا رہی ہے
ابھی اصل قصہ تو باقی ہے عاصم
ابھی سے زباں سوکھتی جا رہی ہے؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں