سید انور جاوید ہاشمی |
تم کہو شام تو پھر شام اُتر آتی ہے
دل پہ شب صورت انعام اُتر آتی ہے
دن گزرتا ہے خد و خال کے ایوانوں میں
رات پھولوں میں جوں گُلفام اُتر آتی ہے
شام پڑتے ہی کھنکتے ہیں اچانک گھنگرو
رات پازیب میں بسرام اُتر آتی ہے
رات زُلفوں کی طرح چھاتی ہے کالی کالی
دل میں لے کے وہ ترا نام اُتر آتی ہے
کچھ تصور میں نہِیں آتا محض تیرے سوا
رات لے کے ترا پیغام اُتر آتی ہے
صبح تک رہتا ہے پھر رقص محبت جاری
عشق کی شکل بہ الہام اُتر آتی ہے
عزیز من جبار واصف رحیم یار خان میں ہمارے نام کے جھنڈے گاڑنے میں لگے ہوئے ہیں ان کی محبت اور ہاشمی نوازی پر لفظ شکریہ بہت معمولی لگتا ہے۔ سلامت رہیں واصف ڈیئر
جواب دیںحذف کریں