عباس تابش |
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لئے
شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لئے
اپنے ہمزاد درختوں میں کھڑا سوچتا ہوں
میں تو آیا تھا انہیں آگ لگانے کے لئے
میں نے تو جسم کی دیوار ہی ڈھائی ہے فقط
قبر تک کھودتے ہیں لوگ خزانے کے لئے
دو پلک بیچ کبھی راہ نہ پائی ورنہ
میں نے کوشش تو بہت کی نظر آنے کے لئے
لفظ تو لفظ یہاں دھوپ نکل آتی ہے
تیری آواز کی بارش میں نہانے کے لئے
کس طرح ترک تعلق کا میں سوچوں تابش
ہاتھ کو کاٹنا پڑتا ہے چھڑانے کے لئے