علی اصغر عباس |
رسائی پانے کو عمروں کی اوٹ میں چھپ کر
رواں زمانہ ہے صدیوں کی اوٹ میں چھپ کر
یہ جھولا جھولتی میری حیات رفتہ ہے؟
ازل سے کہنہ زمانوں کی اوٹ میں چھپ کر
فصیل فردا سے بھی تانک جھانک کرتی ہے
اجل شعار امنگوں کی اوٹ میں چھپ کر
دراز قامت امکان سی وہ ساعت تھی
وصال کھینچتی گھڑیوں کی اوٹ میں چھپ کر
محاربہ تھا کہ جنگاہ عشق و الفت تھی
جمال زہرہ جبینوں کی اوٹ میں چھپ کر
وہ ذی وقار تھا قصر شہی کا دلدادہ
چڑھا فصیل پہ برجوں کی اوٹ میں چھپ کر
اتاری جھیل کنارے تھی رات سورج نے
تو لپکا چاند ستاروں کی اوٹ میں چھپ کر
وہ روبکار محبت کی لے کے آیا تھا
گماں طراز سا لہجوں کی اوٹ میں چھپ کر
خزاں رسیدہ درختوں کی چھب اترتی تھی
کھڑی بہار تھی پودوں کی اوٹ میں چھپ کر
وہ نرم قامت زیبا دراز کونپل سی
کھلی تھی پھولوں کے رنگوں کی اوٹ میں چھپ کر
مجھے گلاب رتوں نے سوال پوچھا تھا
کہ اصغر کون ہے کانٹوں کی اوٹ میں چھپ کر؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں