پہلے اک امتحاں سے گزارا گیا مجھے
پھر جا کے اس زمیں پہ اتارا گیا مجھے
تاریخ دیکھیے کہ میں آیا بصد نیاز
مقتل کی سمت جب بھی پکارا گیا مجھے
دکھ ہے تو یہ کہ اک بھی گواہی نہ مل سکی
حالانکہ اک ہجوم میں مارا گیا مجھے
ہر بار ہو گیا میں صف آرا عدو کے ساتھ
جب جب مرے خلاف ابھارا گیا مجھے
گُھل کر بھی گھل نہ پائے گا ارشد مرا وجود
ساون کی بارشوں میں اُسارا گیا مجھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں