دل مجھے لگتا ہے جیسے بس گیا
اس کو دیکھا یوں لگا کہ بس گیا
نیند سے مخمور آنکھوں کے گلاب
فصل گُل میں صحن گُلشن بس گیا
شام بھیگی رس بھری مہکی ہوا
دل انہی گلیوں میں کیسے پھنس گیا
چاندنی پھیلی تو اک اسرار میں
رات کا دلشاد منظر بس گیا
جس قدر چاہا بھلادوں میں تُجھے
اتنا تو یادوں میں جیسے رس گیا
خشک آنکھوں میں لگی ایسی جھڑی
سرد ساون خون میں جوں بس گیا
دل وہ جس پہ عمر بھر اک ناز تھا
ہاتھ سے نکلا تو بس بےبس گیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں