افضال نوید، ٹورنٹو |
شورِ سلاسل جاں کا وبال رہا
قیدِ رسوم میں مَیں بے حال رہا
کوششِ زیست میں عمر رہی برباد
بندشِ مَے میں قحطِ وصال رہا
کام یہاں تھا اورمگر ہم پر
کارِ معاشِ سخت کا جال رہا
دیواروں کو اَوج رہا اتنا
کارِ محبّت کارِ زوال رہا
شاخِ حنا تُو کس کے ہاتھ لگی
بادِ خزاں تجھے کس کا خیال رہا
خاک مری بیمار رہی اُس کی
شہرِ وجود میں اضمحلال رہا
آتے جاتے دنوں کے ملبے پر
گرد و غبارِ ماہ و سال رہا
تُو نے کان دھرا ہوتا اے کاش
ہم کو تجھ سے ایک سوال رہا
کس سے حال کہوں دل کا کہ یہ دل
کتنا چپ اور کتنا نڈھال رہا
اُس گھر نے ہمیں درد دیا کتنا
تُو جس کے آنگن میں نہال رہا
کس کس بام سے کائی جھانک رہی
کیا کیا سبزہ پائمال رہا
کس کس کا یاں سوگ منائیں ہم
کس کس کا یاں استحصال رہا
تن کا زنگ اُتارنے کی خاطر
کس کس مَے کا استعمال رہا
کہاں کہاں کی ہجرت کی مَیں نے
کیسے کیسے پنچھی پال رہا
مٹّی سے موتی کے جھلکنے تک
آمیزہ کیا کیا کھنگال رہا
اور طرف سے آتی رہی مجھ پر
ایک قیامت جس کو ٹال رہا
تیرے شہر کی گلیاں رہَیں آباد
جن میں تیرا عکسِ جمال رہا
ساون آیا بھڑکی آگ نوید
روئے نہیں ہم یہ بھی کمال رہا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں