سعید شارق |
گردش ِ ماہ و سال کا ایسا کوئی نظام ہو
صبح ِ ازل کو شب ڈھلے ، روز ِ ابد میں شام ہو
کرب ِ ملال ِ گاہ گاہ ، کیوں نہ بڑھائیں رسم و راہ
آخر ِ کار کب تلک صرف دعا سلام ہو
کون سی اُجرتِ وصال ؟اب کہاں روزگار ِ عشق؟
یوں ہی نکل پڑا ہوں مَیں ، جیسے مجھے بھی کام ہو
حبس ِ مکان ِ ذات میں روزن ِ چشم کیا کرے؟
در ہی نہیں تو کس لیے زحمت ِ فرش و بام ہو
ٹھیک ہے مَیں اداس ہوں اور بہت اداس ہوں
یہ تو بس ایک بات ہے ، بات پہ کیا کلام ہو
اور نہیں تو کم سے کم ، ایک شناخت ہی سہی
مجھ کو کبھی پکارئیے ، میرا بھی کوئی نام ہو
جائے نما ز ہجر پر ، بیٹھا رہوں میں عمر بھر
نیت ِ دل سے پیشتر ، رکعت ِ جاں تمام ہو
شاید اِسی طرح کہیں میرا سراغ مل سکے
نیند کا اہتمام ہو ، خواب کا انتظام ہو
مصرع ءِ زندگی ہے اور بحر پہ دسترس نہیں
جانے سعیؔد کس طرح شعر کا اختتام ہو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں