اپنے ہی تلے آئی زمینوں سے نِکل کر
آجاتا ہُوں شاخوں پہ دفینوں سے نِکل کر
دروازے تھے کُچھ اور بھی دروازے کے پیچھے
برسوں پہ گئی بات مہینوں سے نِکل کر
سو جاتی ہے بستی تو مکاں پچھلی گلی میں
تنہا کھڑا رہتا ہے مکینوں سے نِکل کر
ایسی کوئی آسان ہے دیوانگی یارو
آئی بھی تو آئے گی قرینوں سے نِکل کر
مُدّت سے مِرے راستے میں آیا ہُوا ہے
پتّھر سا کوئی تیرے نگینوں سے نِکل کر
آجاتے ہیں ساحِل پہ دِکھانے ہمیں مُنہ لوگ
تاریکی میں ڈُوبے ہُوئے زِینوں سے نِکل کر
کس صبحِ تماشا کا بچایا ہُوا سجدہ
رخ پر چلا آتا ہے جبینوں سے نِکل کر
وہ اور کوئی ابر ہے جو کھُلتا نہیں ہے
سر پر جو کھڑا رہتا ہے سینوں سے نِکل کر
اِک روز جو دیوار تھی وہ ہم نے گِرادی
پانی میں چلے آئے سفینوں سے نِکل کر
دُنیا کو پروئے گا نوید ایک لڑی میں
آئے گا کوئی خاک نشینوں سے نِکل کر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں