علی اصغر عباس |
دل کی جو واردات سرکتی چلی گئی
دوش ِہوا پہ بات سرکتی چلی گئی
لرزیدہ ہونٹ لغزش دوراں بنے رہے
اک چشم ِالتفات سرکتی چلی گئی
کتنا تپیدہ خیز تھا وہ دشت اِنتظار
زیر زمین دھات سرکتی چلی گئی
الجھا تھا آسمان سے دست ِگماں طراز
پھر لوح ِممکنات سرکتی چلی گئی
پہلو بدل کے دیکھنے والا یہ کون تھا
جس کی یہ ایک جھات سرکتی چلی گئی
سرکش ہوا تھا موسم باراں کو دیکھ کر
سورج کی شہہ پہ مات سرکتی چلی گئی
اصغر جو اس نے دھوپ کو آنکھیں ادھار دیں
وہ آئینہ صفات سرکتی چلی گئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں