اس قافلے کے سفر میں کوئی جست نہیں
مگر اتنی جست ضرور ہےکہ
تمہاری آئندہ نسلوں کیلئے ٹوپیاں ڈھال کر
شاہ دولوں کی فوج تیار کر سکے
غبار در غبار
مٹی کے سینے پہ ایسی آندھیاں تو نہیں
جو آسماں چیر دیں
مگر کھنکھارتے وقت کیلئے ایسے سوال ضرور ہیں
جو اگلی صبح تمہارے دانتو٘ ں میں دبی
روٹیوں کو کر کرا کرسکیں
نظر در نظر
اتنی روشنی نہ سہی
کہ صبح کی چادر بُنی جاسکے
مگر یہ ایندھن ہماری شام کی چمنیوں کا زندہ دھواں
محبوس کر سکے گا
بوند در بوند
تھکن کے مساموں میں نمکیات کا اتنا تیز کیمیائی عمل تو نہیں
کہ اسے بارود میں تبدیل کیا جاسکے
مگر اتنا نمک ضرور ہے ہست کی بے بصارت آنکھوں کو
روز دھویا جاسکے
صدا در صدا
دوران_ سفر اتنا شور نہ سہی
جو تمہاری سماعتوں کو پار کرسکے
مگر ایک دبی چیخ ضرور ہے
جو ہماری تاریخ کے کان کے پردے پھاڑ سکے گی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں