راشدہ روٹھی ہوئی رُت کو منانے کے لیے
چاند پھر جھیل میں اترا ہےنہانے کے لیے
پھر سے برسات کے موسم نے قیامت کر دی
دل ہے بیتاب ترے قرب کو پانے کے لیے
روز دریا کے کنارے پہ چلی جاتی ہوں
پانیوں پر میں ترا نقش بنانے کے لیے
نرم یادوں بھرے کچھ عکس سمیٹے میں نے
اور کچھ پھول چنے ٓایینہ خانے کے لیے
کتنے نادیدہ زمانوں سے گزرنا ہےابھی
کوزہ گر ٓانکھ میں اسکی مجھے آنے کے لیے
میری ٓانکھوںکو پڑھے وہ بھی تو ماہین ملک
کاش کچھ رنگ محبت کے چرانے کے لیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں