خُمارِ شب میں زمیں کا چہرہ نِکھر رہا تھا
کوئی سِتاروں کی پالکی میں اُتر رہا تھا
نہا رھے تھے شجر کِسی جھیل کے کِنارے
فلک کے تختے پہ چاند بیٹھا سنور رہا تھا
ھوائیں دیوار و در کے پیچھے سے جھانکتی تھیں
دُھواں لپیٹے کوئی گلی سے گُذر رہا تھا
زمیں کی گردِش کشِش سے آزاد ہورہی تھی
وہ کہکشاؤں میں دھیرے دھیرے بِکھر رہا تھا
پسند تھی گُفتگُو اُسے اور سِلسلوں کی
وہ اور دُنیا کی کھوج میں عُمر بھر رہا تھا
کہ جِس نے مُجھ کو سِکھا دیا جِسم و جاں میں رہنا
یہاں سے پہلے مَیں اِتنا عرصہ کِدھر رہا تھا
کھڑا تھا میری گلی سے باہر جہان سارا
مَیں خواب میں اپنے آپ سے بات کر رہا تھا
ہوا کا جھونکا اُداس کر کے چلا گیا ہے
ابھی ابھی تو مَیں جامِ غفلت کو بھر رھا تھا
اور اب ٹھہر جا نوید آگے تو کُچھ نہیں ہے
تُو عُمر بھر اِس خیال سے بے خبر رھا تھا
کوئی سِتاروں کی پالکی میں اُتر رہا تھا
نہا رھے تھے شجر کِسی جھیل کے کِنارے
فلک کے تختے پہ چاند بیٹھا سنور رہا تھا
ھوائیں دیوار و در کے پیچھے سے جھانکتی تھیں
دُھواں لپیٹے کوئی گلی سے گُذر رہا تھا
زمیں کی گردِش کشِش سے آزاد ہورہی تھی
وہ کہکشاؤں میں دھیرے دھیرے بِکھر رہا تھا
پسند تھی گُفتگُو اُسے اور سِلسلوں کی
وہ اور دُنیا کی کھوج میں عُمر بھر رہا تھا
کہ جِس نے مُجھ کو سِکھا دیا جِسم و جاں میں رہنا
یہاں سے پہلے مَیں اِتنا عرصہ کِدھر رہا تھا
کھڑا تھا میری گلی سے باہر جہان سارا
مَیں خواب میں اپنے آپ سے بات کر رہا تھا
ہوا کا جھونکا اُداس کر کے چلا گیا ہے
ابھی ابھی تو مَیں جامِ غفلت کو بھر رھا تھا
اور اب ٹھہر جا نوید آگے تو کُچھ نہیں ہے
تُو عُمر بھر اِس خیال سے بے خبر رھا تھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں