یُوں بَزم میں سُخن پہ ہے تالا پڑا ہوا
جیسے ہر اِک زباں پہ ہو چھالا پڑا ہوا
آنکھیں بجھی ہوئ ہیں مگر دِل ہے نُور بار!
ہر اِک چراغ میں ہے اُجالا پڑا ہوا!
قِسمت میں اپنی موسمِ ہجرت ہے اِن دِنوں
کیا کیا ہے دھوپ میں گلِ لالہ پڑا ہوا!
ہر آنکھ کو پتہ ہے کہ رونا ہے کس طرح
ہر شخص کا غموں سے ہے پَالا پڑا ہوا!
سنگِ سفید ہوں مرے ظاہر پہ تم نہ جاؤ!
آدم کے لمس سے ہوں میں کالا پڑا ہوا
مختاؔر کاروبارِ سُخن کیا کرے کوئی؟
بازارِ شوق ہے تہہ و بالا پڑا ہوا!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں