محمد سلیم طاہر |
سینہء صبر کھلے ، یاد پرانی آۓ
خشک دریا میں بڑے زور کا پانی آۓ
شوق کہتا ہے کہ دامن سےلپٹ جاؤں گا
ضبط کہتا ہے کہ آنکھوں میں نہ پانی آۓ
رت بدلنے پہ جب آئی ہے تو جی چاہتا ہے
دھوپ اس قریہءجاں میں بھی سہانی آۓ
ہم پہ الفت کے سوا کوئٰ بھی الزام نہ ہو
لاکھ کوشش پہ بھی نفرت نہ نبھانی آۓ
لفط عاجز ہیں مرا ساتھ کہاں تک دیں گے
مجھ کو بھی دل کی کوئی بات بتانی آۓ
معتبر ، سچ کی بدولت نہ ہوا میں طاہر
کاش اب جھوٹ کی، بنیاد اٹھانی آۓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں