علی زریون |
میں نے کب تم سے کہا ،دیوتا مانو مجھ کو
میں نے کب تم سے کوئی نذرِ عقیدت چاہی
میں نے تا عمر فقط اسمِ محبّت لکّھا
میں نے چاہی بھی تو انسان کی عزّت چاہی
ہاں مِرا جرم کہ میں شہ کا نمک خوار نہیں
ہاں مجھے فخر کہ میں یار کو رب کہتا ہوں
میں قلمکار ہوں،کتّا نہیں درباروں کا
میں اندھیرے کو اجالا نہیں،شب کہتا ہوں
آل ِ دینار مجھے کچھ بھی کہے،کیا پرواہ
اہلِ دل اہلِ محبّت مجھے پہچانتے ہیں
میں تو مٹّی ہوں،محبت سے اگر کوئی ملے
سب بزرگان و جوانان مجھے جانتے ہیں
تم تو سادہ ہومگر شیخ ِ حرم سادہ نہیں
وہ جو منبر پہ عقیدوں کا لہو کرتا ہے
(اہل ِ تحقیق کے ہاتھوں پہ بھی رعشہ اترا
اہل ِ فن ہیں تو وہ مِیری میں ہی الجھے ہوئے ہیں)
اب یہاں کون ؟؟ کہ جو اس کا گریباں پکڑے
اور پوچھے کہ خُدا ہے جو تُو کرتا ہے ؟؟؟
ایسے عالم میں یہ آوازہ ء نو گوںجا ہے
یہ تو چاہیں گے یہ آواز یہیں مر جائے
یہ تو چاہیں گے کہ قائم رھے دہشت کا نظام
زھر ھو جائے فلک چاھے زمیں مر جائے
ان کے ھاتھوں سے یہاں عصمتیں لٹتی ھی رہیں
ان کے جبڑوں سے ٹپکتا رھے خوابوں کا لہو
یہ نہ چاہیں گے یہاں سچ کا سویرا نکلے
یہ نہ چاہیں گے کہ مٹ جائے تمیزِ من و تُو
تم بھی گر ساتھ انھی کے ھو تو اے جان ِ سخن
کوئی شکوہ ہے نہ اب کوئی گِلا ہےتم سے
تا ابد میرے لئے کافی و شافی ہےوہ پل
صرف اک پل جو محبت کا ملا ہےتم سے ۔۔۔ !!
میں نے کب تم سے کہا ! دیوتا مانو مجھ کو
میں نے کب تم سے کوئی نذرِ عقیدت چاہی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں