کسی ویران جنگل میں کسی کیکر کا سایا ہوں
اوراک چادرکی صورت اپنےکانٹوں پربچھایا ہوں
مجھے تو اپنے ہی دکھ درد سے فرصت نہیں ملتی
قسم لے لو کبھی جو بھول کر بھی مسکرایا ہوں
کسی کی آس بن جانا مری فطرت میں لکھا ہے
کوئی بادل ہوںاورسوکھےہوئےکھیتوں پہ چھایاہوں
مجھے رہنا پڑے گا عمر بھر اپنے اندھیروں میں
مرا یہ جرم ہےبجھنے سے پہلے ٹمٹمایا ہوں
جو رہ رہ کر کریدہ جا رہا ہوں زخم کی صورت
کوئی بتلائے گا میں کس کی یادوں کا بقایا ہوں
میں اپنا بوجھ کب تک اپنے کاندھوں پر لیے پھرتا
جہاں سے خود کو لایا تھا وہیں پر پھینک آیا ہوں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں