یہ شب جا رہی ہے سحر کی طرف
چلو، ہم بھی چلتے ہیں گھر کی طرف
مرا دھیان دل کی طرف یوں گیا
دُعا جیسے بابِ اثر کی طرف
قدم کیا اُٹھاتے کہ دل اُٹھ گیا
گئے پھر نہ اُس رہ گزر کی طرف
معمّہ یہ آکر کُھلا باغ میں
اِشارہ تھا وہ کس شجر کی طرف
میں اسبابِ دُنیا کو کیا دیکھتا
نظر تھی مری اُس نظر کی طرف
کُھلا، دل کا مقروض میں ہی نہیں
کہ یہ قرض ہے بیش تر کی طرف
نکل جائیں گے بادلوں کی طرح
کسی دن اِدھر سے اُدھر کی طرف
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں