افراسیاب کامل |
پابندِ امتیازِ زمانہ نہیں ہوں میں
تہذیبِ ساختہ کا نشانہ نہیں ہوں میں
پہرے پہ میرے سانپ بٹھائے ہیں کس لیئے
اے چشمِ تاجدار خزانہ نہیں ہوں میں
گنتی کے ساتھ دے جو نوالے غریب کو
اے فکرِ روزگار زمانہ نہیں ہوں میں
جس میں کسی گماں کے اندھیروں کا راج ہو
وہ بے چراغ آئنہ خانہ نہیں ہوں میں
آنسو بتا رہے ہیں مرے دکھ کی منزلیں
کہتی ہے اس کی آنکھ فسانہ نہیں ہوں میں
آنکھوں کا فاصلہ مجھے صدیوں کا ٖفاصلہ
آنسو ہوں اور دل سے روانہ نہیں ہوں میں
تہذیب بھی فریب تمدّن بھی ہے فریب
تم،ایسے مجرموں کا ٹھکانہ نہیں ہوں میں
وہ لو ہے جو چراغ کی محتاج ہے کہیں
جگنو ہوں اور منّتِ شانہ نہیں ہوں میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں