انور زاہدی |
فلک پہ ابر ہو چھایا قمر نہیں آتا
ہوائیں تیز چلیں گھونسلے بکھرتے ہیں
پھر اس کے بعد کبھی کوئ گھر نہیں آتا
فلک سدا سے رہا ظلم پر یونہی خاموش
زمیں اُجڑتی رہی پر ثمر نہیں آتا
ترا خیال مرے دل میں دھڑکنوں کی طرح
دھڑکتا رہتا ہے لیکن نظر نہیں آتا
وہ گھر اُداس وہیں اُس کی راہ تکتا ہے
مگر وہ ایسا گیا پھر سے گھر نہیں آتا
صحیفے آسماں سے جانے کس لئے اُترے
زمیں کے لوگوں پر اس کا اثر نہیں آتا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں